اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی حکام کے مطابق سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اتوار کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری میڈیا اور ذرائع کے مطابق سعودی وزیر دفاع پاکستانی قیادت سے باہمی دلچسپی کے دو طرفہ معاملات اور علاقائی صورت حال پر بات چیت کریں گے۔
جب کہ شہزادہ محمد بن سلمان دفاع کے شعبے میں تعاون اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق اُمور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سعودی وزیر دفاع یہ دورہ ایسے وقت کرنے جا رہے ہیں جب سعودی عرب میں ہزاروں پاکستانی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سبب پھنسے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب میں تنخواہیں نا ملنے یا ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کے بعد پھنسے پاکستانی شہریوں کے لیے حال ہی وزیراعظم نواز شریف نے مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے کی اعانت کا اعلان کیا تھا۔
سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں، تاہم حالیہ مہینوں میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث اس ملک میں پیدا ہونے والی معاشی صورت حال کے باعث سعودی عرب میں قائم بہت سی کمپنیوں میں کام کرنے والوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ اُن میں ایک بڑی تعداد میں پاکستان اور بھارت کے شہری بھی شامل ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران سے اس معاملے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ دفاعی اُمور کے تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سعودی وزیر دفاع کی پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں میں ایک اہم معاملہ دفاعی شعبے میں تعاون کو وسعت دینا ہو گا۔
’’سعودی عرب حال ہی میں بنائے گئے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں پاکستان کے زیادہ بڑے کردار کا خواہاں ہے۔۔۔۔ میرے خیال میں اس حوالے سے سعودی وزیر دفاع تجاویز لے کر آئیں گے۔‘‘ پاکستانی حکام کے مطابق اُن کا ملک پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف مختلف ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور انسداد دہشت گردی کے خلاف اپنے تجربات کا دوسرے ملکوں سے تبادلہ کرنے کو تیار ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف 30 سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اپنی فوجیں سعودی عرب بھیجے۔
’’سب سے اہم پہلو یہ کہ ہماری فوج (دہشت گردی) کے خلاف جنگ میں مصروف ہے کہ ہم (اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد) میں بہت زیادہ حصہ نہیں لے سکتے۔۔۔ ہم انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے میں تعاون کر سکتے ہیں، تربیت وغیرہ فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے یہ بیان سامنے آتے رہے ہیں کہ سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔