یمن (اصل میڈیا ڈیسک) یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے اپنے آئندہ بھی جنگ کے لیے تیار رہنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب میں چھ اور متحدہ عرب امارات میں تین ’حساس‘ مقامات کو اپنے عسکری اہداف کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یمن کی خانہ جنگی کے دو بڑے متحارب فریقین میں سے ایک کے طور پر اس عرب ریاست کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے خلاف لڑنے والے ایران نواز حوثی باغیوں کے اس بیان میں ایک اشارہ بھی ہے۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ یمن کی خانہ جنگی میں فائر بندی کے لیے غیر رسمی بات چیت کے باوجود حوثی باغیوں کے اس بیان میں یہ پیغام بھی ہے کہ وہ بوقت ضرورت آئندہ بھی لڑائی کے لیے تیار ہیں۔
حوثی باغیوں کی ملیشیا کے عسکری ترجمان یحییٰ ساریا نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر بس اتنا ہی کہا کہ حوثیوں نے اپنے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں حملوں کے لیے ایسے کلیدی اہداف طے کر رکھے ہیں، جو سب کے سب انتہائی ‘حساس اور ناگزیر اہمیت‘ کے حامل مقامات ہیں۔
یحییٰ ساریا نے حوثی باغیوں کی سال 2019ء کے دوران سرگرمیوں کا میزانیہ اور سال 2020ء سے متعلق امکانات اور توقعات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حوثی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کئی سویلین ہوائی اڈوں اور تیل کی صنعت کے بنیادی ڈھانچوں پر حملے کر چکے ہیں اور ان کی نظریں ان دونوں ممالک میں کئی اہم اہداف پر لگی ہوئی ہیں۔
یحییٰ ساریا کا یہ بیان حوثی باغیوں کے ٹیلی وژن المسیرہ سے نشر کیا گیا۔ اس بیان میں حوثی ملیشیا کے عسکری ترجمان نے دھمکی دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر یمن اور اس کے عوام کے خلاف مزید حملے کیے گئے، تو ‘حوثی مسلح افواج بھی ان کا بہت مناسب جواب دیتی رہیں گی‘۔
یمن کی جنگ میں حوثی باغیوں نے صدر منصور ہادی کی حکومت کو 2014ء کے اواخر میں اقتدار سے باہر کر دیا تھا۔ صدر منصور ہادی کی قیادت میں ملکی حکومت کی بحالی کے لیے سعودی عرب نے اپنے حلیف ممالک کے ایک بین الاقوامی فوجی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے مارچ 2015ء میں یمن کی خانہ جنگی میں مداخلت کر دی تھی۔ تب سے سعودی عرب بھی بالواسطہ طور پر اس جنگ کا ایک فریق ہے اور متحدہ عرب امارات اس عسکری اتحاد میں سعودی عرب کا ایک بہت اہم اتحادی ملک۔
اس سال جولائی میں متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنے فوجی دستے تو واپس بلا لیے تھے تاہم وہ عملی طور پر ابھی تک حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری اتحاد میں شامل ہے۔
اس سال 14 ستمبر کو سعودی عرب میں تیل پیدا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ارامکو کی تیل کی تنصیبات پر جو بڑا حملہ ہوا تھا، اس کی ذمے داری بھی یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کر لی تھی۔ اس کے برعکس سعودی عرب، امریکا اور یورپی یونین نے کہا تھا کہ اس حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ تھا۔ ایران نے اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔