الریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں اپنے اقدامات کی بدولت دوسرا جرمنی ثابت ہوگا اور وہ توانائی کے اپنے کل استعمال میں سے 50 فی صد قابلِ تجدید توانائی پر انحصار کرے گا۔
یہ بات سعودی عرب کے وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے بدھ کو دارالحکومت الریاض میں منعقدہ مستقبل سرمایہ کاری اقدام کے چوتھے ایڈیشن میں تقریر کرتے ہوئے کہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب توانائی کے شعبے میں جو بھی اقدامات کرے گا،اس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مدد ملے گی۔سعودی عرب کوایک معقول اوراچھے بین الاقوامی شہریوں کے حامل ملک کی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے۔ہم آیندہ برسوں کے دوران میں شہریوں کو مزید وسائل بھی مہیا کریں گے۔میں تو یہ کہوں گا کہ ہم بہت سے یورپی ممالک سے زیادہ مہیا کررہے ہوں گے۔‘‘
وزیر توانائی نے کہا کہ سعودی عرب مزید ہائیڈروکاربن (ایندھن) کوقابل تجدید توانائی میں تبدیل کرے گا،اس کے اخراج کو ری سائیکل کرے گا اور وہ بلیو ہائیڈروجن اور گرین ہائیڈروجن کو اختیار کرنے والے ابتدائی ممالک میں سے ایک ہوگا۔بہت سے یورپی ممالک ان پروگراموں میں سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری کو تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’سعودی حکومت نے گیسوں کے اخراج میں کمی کا عزم کررکھا ہے۔اس وقت نوجوانوں پر مشتمل ٹیم ہائیڈروکاربن مالیکیولز کو مختلف استعمالات میں لانے کے لیے تبدیل کرنے کی غرض سے کام کررہی ہے۔‘‘
شہزادہ عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’’توانائی کی تبدیلی کے اس عمل میں ہزاروں بیرل تیل کی بچت ہوگی۔‘‘
انھوں نے شرکاء کو بتایا کہ’’ایندھن کی قیمتوں میں اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے۔ہم موسمیاتی تبدیلی کے ایشو کے بارے میں خوب آگاہ ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔‘‘
سعودی وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ ’’ہم نہ صرف پیرس موسمیاتی سمجھوتے کے لیے پُرعزم ہیں بلکہ ہم اس سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے جا رہے ہیں۔یہ ایک اچھا کامیاب سمجھوتا ہوگا۔اس سے ہمیں اقتصادی ترقی کے مواقع ملیں گےاور معیشت کو متنوع بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘