تحریر : انجینئر افتخار چودھری کاسٹن کے کام کا بھی چل چلائو تھا آخری دنوں میں جوں جوں کام ختم ہو رہا تھا لوگوں کی بھی چھٹی ہو رہی تھی۔کمپنی کے اپنے لوگ جو دبئی سے آئے تھے ان کے علاوہ لوگوں کو فارغ کیا جا رہا تھا سردیوں کے دن تھے۔جدہ کی سردی معمولی ہو تی ہے۔سمندرکنارے سردی کچھ معمول سے زیادہ تھی۔ پاکستان سے کوئی بھی آتا والدین میرے لئے اور بھائی درایمان کے واسطے اور دیگر دوستوں کے لئے کچھ نہ کچھ بھیج دیتے۔سویٹر چلغوزے اس طرح کی چیزیں بھلی لگتی تھیں۔ایک روز میرا حساب بھی کر دیا گیا میں نے وہاں کوئی چار ماہ کام کیا دوستوں سے بچھڑنے کا افسوس تھا دوسری بڑی بات یہ تھی کہ کام لگا ہوا تھا۔میں نے محسوس کیا کہ گورے لوگوں میں جذبات کی شدید کمی ہوتی ہے ایک بار گجرات کا ایک نوجوان کام کر رہا تھا ایک شیٹ اوپر سے اس کے اوپر گری اللہ نے اسے بچا لیا میں دوڑ کر اس کے پاس گیا اتنے میں دو تین گورے میرے اوپر چیخنا شروع ہو گئے۔ہمدردی محبت اور پیار ان کے نزدیک ثانوی چیزیں تھیں برطانوی گورہ خوف و ہراس کی فضاء بنا کر کام لیتا ہے ہر وقت آپ کے اوپر تلوار لٹکی رہے گی زبان اتنی گندی استعمال کرتے ہیں کہ ان کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔البتہ اللہ کا فضل ہے میں نے انہیں مناسب حد تک رکھا کام سخت محنت سے کیا۔وہاں سے ایک بار پھر فارغ ہو کر گھر آیا۔
ان دنوں شہر کا مرکز بلد تھا صرف بلد جو بھی چیز خریدنی ہے مکہ روڈ پر بسوں میں بیٹھ کر وہاں جانا پڑتا تھا۔ہمیں مین سڑک سے ایک کلو میٹر دور رہائش گاہ میں ملی تھی۔اسی ایریا میں شہر کا کوڑا کرکٹ بھی پھینکا جاتا تھا۔کلو ستہ میں تین چار گھروں میں رہنا ہوا۔اقامہ رہائیشی پر مٹ ملا نہیں تھا بس ایسے ہی گزارا ہو رہا تھا۔یہاں تھوڑی سی یاد داشت میں گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ یاد آیا ہم سب سے پہلے کلو ستہ کے اس گھر کے پاس آئے جو مصانع التیثیر للتلج(تیسیر برف کا کارخانہ) یہ کلو ستہ مکہ روڈ پر واقع ہے۔یہاں سے اندر آئیں تو بائیں ہاتھ شیخ عمر قاسم العیسائی کا محل ہے یہیں سے کوئی ایک یا پون کلو ایک اضافی بسی جو بلاکوں اور لکڑی کے بالوں سے بنائی گئی تھی۔یہ در اصل شیخ شربت علی کی جگہ تھی جو کسی زمانے میں جدہ کے میئر تھے انہوں نے بے شمار جگہ قبضے میں لے لی تھی۔دیہات سے آنے والے بد ء وں نے جو پولیس فوج اور دیگر محکموں میں ملازم تھے انہوں نے قبضہ کر لیا تھا اور یہ مکان بنا لئے تھے۔اس قسم کے گھروں کو بیت شعبی کہا جاتا تھا دیسی گھر۔دو کمروں پر مشتمل یہ گھر ہمارے نصیب میں ہوا۔ایک کمرے میں شفیق بابو اشرف اور ہامرے ساتھ دو اور دوست رہنے لگے ۔ساتھ والے کمرے میں گجرات بوکن نامی گائوں کا اقبال اور گجرانوالہ کا چھماں اپنے دو ایک دوستوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔پردیس میں آپ کا گزارا ہی نہیں ہو سکتا جب تک آپ کا کوئی جگری یار نہ ہو ایسا دوست جس سے آپ وہ سب کچھ کہہ سکیں جو آپ صرف اپنے آپ کو بتانا چاہتے ہیں۔بابو اشرف میرا بہترین دوست تھا مجھے ان کے گھر ان کے رشتے داروں کے نام اب بھی یاد ہیں ان کے والد صاحب کا نام یعقوب عباسی تایا منصف بچوں کے نام اشتیاق اقو اشفاق۔غرض ان سے خوب دوستی نبھی۔بابو اشرف کا تعلق ہری پور کے گائوں پینہ سے تھا جو ہلی کی ایک داخلی ہے اسی کے ساتھ میرا ددھیالی گائوں ہے جس کا نام نلہ ہے۔
ایک بار گجرانوالہ گھر سے بے جی نے لاچوں کا ایک چوکہ بھیجا پنجابی لنگ،دھوتی۔ایک لاچہ شفیق کو دیا ایک بابو صاحب کو ایک خود رکھا اور چوتھا بھائی در ایمان کو دیا۔بابو جی کو بڑی مشکل سے باندھنا سکھایا۔گرمیوں کے دن تھے ہم سب باہر صحن میں گدے بچھا کر سویا کرتے تھے۔اگلی صبح اٹھے اور کہا من گیاں پنجابیو تساں مزے کن گئے او۔کیا دن تھے اور کیا یادیں۔انہی دنوں ایک غوغہ مچا کہ شاہ خالد مسلمانوں کو اقامہ دے رہے ہیں۔جس کا نام انہوں نے مسلم ٤٤ رکھا ۔غیر قانونی مقیم لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ قانونی بن جائیں۔کسی بھی کفیل کو پکڑیں اور اس کی کفالت میں چلے جائیں۔اس دوران ہوا کچھ یوں کہ ایک دن ہم نوکری کی تلاش میں نکلے بابو جی ساتھ تھے۔ہم چلتے چلتے ساحل سمندر کی طرف نکل گئے وہاں ایک یونانی کمپنی کے دفتر میں گھس گئے سوال یہی ہوتا تھا شغل فی؟ اکثر جگہ سے جواب آتا مافی۔ہم پوچھتے کام ہے جواب ملتا نہیں ہے۔شائد کمپنی کا نام لیٹکو تھا یہ یونانی کمپنی تھی انہوں نے ہمیں جاب کی آفر کر دی کہ آپ لوگ کام کریں گے ڈرائور اور پرچیزر کا تنخواہ ملے گی ٣ ہزار ریال ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے گرچہ کاسٹن میں ٢٥٠٠ لے چکا تھا مگر وہ دیہاڑی داری تھی ہمیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کوئی ہمیں اتنی خطیر رقم دے سکتا ہے۔دو دوستوں نے سوچنے کا موقع مانگا اور ہم باہر ہی سے کھسک گئے کہ یہ دھوکہ ہے۔ساتھ ہی ساحل سمندر پر ماء تحلیہ پانی صاف کرنے کا پلانٹ لگانے کی کمپنی۔وہاں ہم دونوں اٹھارہ سو میں بھرتی ہو گئے۔انہی دنوں جب کفالتیں ہو رہی تھیں ایک دو ماہ بعد انہوں نے کہا کفالت میں آنا ہے تو تنخواہ ١٢٠٠ ہو گی۔
ہم نے پاسپورٹ واپس لئے اور دوسرے کاموںکی تلاش شروع کر دی۔مجھے پاکستان سے آئے کوئی دس ماہ ہو چکے تھے بس زندگی ایسے ہی گزر رہی تھی۔میں نے ایک سر گرم زندگی گزاری تھی لاہور کا پولی ٹیکنیک جو ریلوے روڈ پر تھا میں نے وہاں طلباء سیاست میں نام کمایا تھا کالج میں غنڈہ گردی کو لگام دی تھی اسلامی جمعیت طلبہ کو قائم کیا تھا یہ سب کچھ مجھے خواب لگ رہا تھا کبھی اپنے آپ کو چٹکی کاٹتا کہ میں وہی راہی ہوں جو بنگلہ دیش نامنظور،تحریک ختم نبوت ،تحریک نظام مصطفی میں طلاباء تحریک کا نامی گرامی لڑکا تھا۔ڈیبیٹر تھا مجھے حالات نے کبھی سوچنے ہی دیا کہ تم وہ ہو۔میں گینتی بیلچے والے اپنے پیارے دوستوں رشتے داروں میں دھنس کے رہ گیا۔ایک دن جمعے کی نماز کے بعد بلد گیا وہاں مجھے اصغر مل گیا۔میں پولی ٹیکنیک لاہور سے پڑھا وہ پنڈی سے جب یہ پنڈی کالج فوج نے قبضے میں لیا اصغر سیالکوٹ چلا گیا۔اس نے مجھے چڑے مڑے کپڑوں میں دیکھ لیا میں شرما رہا تھا کہ میری کیا حالت ہے وہ جینز اور ٹی شرٹ میں تھا میں شلوار قمیض میں۔اس نے کہا تم راہی ہو میں کہا جی ہاں بھٹکا ہوا۔اس نے گلے سے لگا لیا حالت سنی اور کہا یار کل کلو ستہ چوک میں بیوت الشباب کے پراجیکٹ پر آ جانا تمہیں مناسب کام دے دیا جائے گا۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ ریڈی میڈ گھر ٹویوٹا کمپنی کے اگلے اشارے سے آپ دائیں شارع اسکان پر جائیں تو آپ کو بائیں ہاتھ ایک بڑے پراجیکٹ کی شکل میں نظر آتے تھے سنگل سٹوری گھروں پر مشتمل ایک شہر آباد تھا۔ میرے پاس کچھ رقم تھی میں نے ایک سوزوکی موٹر سائیکل لے لی۔اپنے لوگوں میں پہلی سواری میرے پاس آ گئی اس سے یہ ہوا کہ میں شہر میں ادھر ادھر جانے لگا۔اس موٹر سائیکل کے کوئی کاغذ نہ تھے بغیر نمبر پلیٹ بے شمار سائیکلیں تھیں۔
Saudi Arabia
جامعہ کے دوارے کے پاس پمپ تھا وہاں سے پٹرول موٹر سائیکلوں کو مفت مل جاتا تھا ریال کے ٤٦ لیٹر ملتے تھے ڈیڑھ دو کے لئے وہ کیا لیتے۔ونڈی دی شرینی کی طرح یمنہ موٹر سائیکل والوں کو فری بھر دیا کرتے تھے۔رمضان کے دنوں میں برف لانا اور کوئی چھوٹا موٹا سودا لے آیا کرتا تھا۔چودھری یونس سمند والا اللہ اسے جنت بخشے ایک دن اسے کندرے چھوڑنے گیا بدر بیکری کے بعد ایک موڑ کے پاس سے جا رہا تھا ١٨٠ نیسان زرد رنگ کی ٹیکسی نے مجھے سائیڈ ماری گھسٹتا چلا گیا اللہ نے بچا لیا بڑی مشکل سے گھر پہنچا غیر قانونی تھا بھائی در ایمان اور دیگر دوستوں نے سنبھالا سافلون اور پٹی لے کر باندھتا رہا زخم خراب ہو گیا بد قسمتی کہ کام پر نہ جا سکا۔یہ عید سے چند دن پہلے کی بات تھی۔پٹی لگی ہوئی تھی بھائی در ایمان نے کہا میرے ساتھ دمام چلو۔وہ ایسے کہہ رہے تھے جیسے دمام ساتھ ہے ہم جدہ میں تھے اور دمام کوئی ١٤٠٠ کلو میٹر دور تھا۔اس سے پہلے لی کی جینز اور اور ایک لنڈی سی شرٹ بھی لی تھی۔ہینو ٹرک کے کیبن میں پیچھے ڈرائور کی سیٹ کے ساتھ ایک بیڈ سا بنا ہوا تھا میں غیر قانونی شخص اس پر بیٹھ گیا۔جب کبھی چیک پوسٹ آتی میں لیٹ جاتا ویسے بھی ان دنوں اتنی سختی نہ تھی ہم کوئی دو دنوں کے بعد دمام پہنچے واپسی پر الریاض رکے وہاں گرائیوں سے ملاقاتیں رہیں۔جدہ کوئی ایک ہفتے بعد واپس آئے۔کچھ زخم ٹھیک ہوئے تو ایک دن زبیری صاحب جن کا ذکر آگے آئے گا انہوں نے کہا افتخار کوئی مزدور لانا ایک فریج چڑھانی ہے۔میں غلام رسول کو لے گیا اللہ اس بھائی کا گھر جنت میں کرے بڑا کڑیل جوان تھا اس نے ایک چادر کے شکنجے میں فریج کو لیا اور تیسری منزل پر لے گیا بڑی شاباش ملی۔جس دوران اسے شاباش مل رہی تھی کوئی کالا میرا بائیک اڑا لے گیا۔یہ قصہ تو بیچ میں موٹر بائیک کا آ گیا اصغر جو مجھے بلد میں ملا تھا اب اس کا تذکرہ سنیں(باقی آئیندہ)۔
میں اگلے دن کلو ستہ چوک پہنچ گیا اصغر اور پچاس ساٹھ پاکستانی بڑی خوبصورت وردی پہنے نظر آئے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ اور اسی کلر کی پینٹ میں ملبوس سارے لڑے پولی ٹیکنک سے نکلے ہوئے نوجوان تھے۔اصغر نے مجھے پوچھا کیا کام کر لو گے میں نے کہا یار سچی بات ہے کچھ بھی نہیں آتا تم خود بتائو یہاں کیا کیا کام ہے میں اپنی دل چسپی بتائوں گا وہیں لگا دوں گا اس نے کہا میں تمہیں ایک پینٹر کے ساتھ لگا دیتا ہوں دو چار گھنٹوں میں ہاتھ سیدھا کر لینا پھر تمہارا ٹیسٹ ہو گا۔مجھے ایک لاہوری استاد کے ساتھ لگا دیا۔کام یہ تھا کہ ریڈی میڈ دیواروں کے اندرونی حصے میں پوٹین لگانی تھی۔مجھے اس نے دو پترے سے دے دئے اور کہا یہ مکسچر تم نے دیوار پر لگان اہے۔میں نے استاد جی سے کہا آپ اللہ کا نام لے کر پہل کریں دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔پتروں کا کام رانا موٹرز لاہور مین دیکھ چکا تھا وہاں گاڑی پر سٹیل پوٹین لگائی جاتی تھی یہاں پوٹین مختلف تھی۔میں نے استاد جی کو غور سے دیکھا وہ کمال مہارت سے پوٹین کو پتروں پر گھماتے اور اس دوران بڑی خوبصورت آوازیں بھی پیدا کرتے۔میں نے دس منٹ بعد کوشش شروع کر دی۔اور اندازہ لگایا آدھ گھنٹے میں استاد جی کی طرح نہ سہی کچھ کم یا زیادہ کام کر لوں گا۔دن کے چار بجے صورت حال یہ تھی میں پتروں پر لگی پوٹین کو جھک کر نیچے سے شروع کرتا اور اورپ لے جاتا اس طرح ایک ہاتھ کوئی سات فٹ فاصلہ طے کر لیتا۔شام کو عبداللہ آیا انگریز تھا پورا۔اس نے تھوڑی دیر دیکھا اسے کام پسند آ گیا مجھے اس وقت افسوس ہوا جب میرے استاد جی فیل قرار دئے گئے اور میں درجہ اول کے پینٹروں میں سیلیکٹ ہو گیا ١٢٠ ریال دیہاڑ لگی۔میں نے اصغر سے بات کی یہ نہیں ہو سکتا کہ میں کام کروں اور استاد جی باہر اس نے ٨٠ ریال پر استاد جی کو بھی رکھ لیا۔بات کہنے کو اچھی نہیں لگتی کہ اپنی اچھائیاں گنوائوں میں نے اس پراجیکٹ پر بحثیت پینٹر دو ماہ کام کیا ہم دونوں سو ،سو ریال لیتے رہے اس بات کی خبر عبداللہ صاحب کو کسی نے بتا دی انہوں نے بلا کر شاباش دی اور مجھے ریگولر کر دیا گیا اب میں اصغر کی ٹیم میں شامل ہو گیا شرارتیں اپنی جگہ زندہ ہو گئیں میں پھر سے زندہ ہو گیا ہوش آ گئی۔اسی دوران مولا بخش جو ایک مستری تھا اور پانچ وقت کا نمازی تھا اس نے مسجد سے ایک کفیل ڈھونڈا اور ہمیں ٢٥٠٠ ریلا دے کر ایک کفیل کے ساتھ منسلک کر دیا ۔میرے پہلے کفیل کا نام سلیم نافع الحربی تھا وہ عربوں میں ایک اچھا انسان تھا۔پینٹر کی حیثیت سے بہترین کارکردگی کا یہ فائدہ ہوا کہ مجھے ٹیکنیشن کی حیثیت سے بھرتی کر لیا۔پڑھے لکھے لوگوں میں جا کر محسوس ہوا کہ میں تو اس ماحول کے لئے پیدا ہوا تھا صبح بہترین ناشتہ ۔ایک بڑے سے خیمے میں جوس چائے کافی پھر دس بجے ایک اور رائونڈ جس میں چائے کے ساتھ ہلکے پھلکے بسکٹس کیک۔ٹھیک ایک بجے بہترین کھانا فروٹ کے ساتھ اپنی تو موجیں لگ گئیں۔پانی نعص کا اور وہ بھی فرانس کا۔غالبا یہی وہ پانی تھا جس کے چرچے تھے کہ بھٹو صاحب فرانس سے پانی منگواتے ہیں۔یہ کمپنی فرناس کی تھی اٹنیپ اس کا نام تھا مجھے اس سے پہلے ارگاس میں پندرہ دن لگانے کا تجربہ ہو چکا تھا۔فرانسیسی کمپنی سے میں نے دو چار جملے سیکھ لئے تھے۔کامو تالے ووو۔تمہارا کیا حال ہے اس کے بعد اگر کوئی بات کرتا تو کہہ دیتا فرانسیسی خلاص۔یہاں گورے ٹیکنیشن بھی تھے پاکستانیوں کے انچارج ایک صاحب تھے غالبا ان کا نام فصیح الدین زبیری تھا وہ پی پی پی کی سینیٹر رخسانہ زبیری کے شوہر تھے ان کے ساتھ ایک افغانی پارٹنر تھا جو نام کا افغانی تھا ماں اس کی فرنچ تھی اور باپ افغانی نام کا مسلمان تھا۔
اٹنیپ نے ٹھیکہ لے رکھا تھا یہاں مجھے کوئی دو تین ماہ کام کرنے کا موقع ملا پاکستانی بات بات پر جھگڑتے تھے ایک صاحب جن کا نام حامد تھا وہ لاہور پولی ٹیکنیک سے تھے ان کا ایک گروپ تھا دوسرا اصغر کا میرے لئے ان دونوں کو بیلینس کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔بس اس طرح دن گزر رہے تھے میں بڑی مشکل فضاء سے یہاں آیا تھا میں نے پہلی بار ایک انٹر نیشنل کمپنی کا ماحول دیکھا تھا۔عبداللہ اور زبیری صاحب میں بڑی لڑائی ہو گئی دونوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگے۔جیت زبیری صاحب کی ہوئی۔جیسے ہی ایک خالص پاکستانی کے پاس کمپنی کے امور آئے ناشتے واشتے ختم ہو گئے پانی کی جگہ بڑے ڈرموں میں سادہ سا پانی آنے لگا اس دوران میں نے بابو اشرف کو اس کمپنی میں ڈیلی ویجز پر بھرتی کرا دیا۔میری حیثیت بہتر تھی یاری دوستی تھی تعلق تھا بابو جی لیبر میں ٩٠ ریال یومیہ پر لگ گئے۔اشرف عباسی صاحب کی عادت میری طرح تھی کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔رمضان کے دن تھے۔کوئی دس بجے جب گرمی عروج پر تھی ایک کالے سے پنگہ لے لیا اس کے منہ پر لکیریں تھیں کالے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور تھوڑی دیر بعد ان لکیروں پر ہاتھ رکھ کر کہنے ایش فی کدا کدا؟یہ کیسی لکیریں ہیں؟اس نے بابو جی کی الٹ بازی لگا دی گرمی تھی مجھے بابو جی کی تاڑا کی آواز آئی دوڑا دوڑا آیا دیکھا کالے ان کے سینے پر بیٹھا دے مار تے ساڈھے چار کر رہا تھا۔یقین کیجئے بابو جی زندہ ہیں اللہ انہیں لمبی عمر دے مشہور صحافی اور دمام کے معروف پاکستانی اشتیاق عباسی کے والد ہیں اور ہری پور میں رہتے ہیں ان کی حالت دیکھ کر میں نے آئو دیکھا نہ تائو بیلچہ اٹھا کر پورے زور سے اس کالے کی کنڈ پر مارا۔اس کی آواز بھی بلند ہوئی بابو جی نیچے سے اٹھے اب میں نے انہیں کہا موٹر سائیکل کے اوپر بیٹھو ۔میں نے اپنے دوستوں کا شکریہ بھی نہ ادا کیا حالت ایسی تھی۔سنا ہے بعد میں کالے نے شکائت کی اور پولیس بھی آئی مگر ہم موقع واردات سے نکل گئے تھے۔اٹنیپ کی اچھی نوکری اس لڑائی کی نظر ہو گئی۔بعد میں کمپنی کا بھی بیڑہ غرق ہو گیا نا اتفاقی اس کو تباہ کر گئی۔ اس دوران اقامہ ہاتھ آ گیا تھا (باقی آئیندہ)