نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت اور سعودی عرب دہشت گردی کے خلاف اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کونسل بنانے پر متفق ہو گئے ہیں۔ سعودی وزیر برائے خارجہ امور عادل الجبیر ایک مختصر دورے پر پیر کے روز نئی دہلی پہنچے۔ جہاں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کونسل بنانے کے فیصلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کا نام نہیں لیا۔ اور کہا کہ ’’ہمیں فوری طور پر ناقابل تنسیخ اور قابل تصدیق کارووائی کے لیے دہشت گردی کے خطرہ سے نمٹنا ہوگا‘‘۔
بھارت کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات مثبت ہیں۔ انہی تعلقات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بھارت نے سعودی عرب سے رضاکارانہ طور پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی توقع کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان جموں کشمیر میں موجود عسکریت پسندوں کا ساتھ دینا بند کرے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند سن 1989 سے جموں کشمیر میں بھارتی فوج سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان جموں کشمیر میں موجود مزاحمت کاروں کی نہ صرف تربیت بلکہ پشت پناہی بھی کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا کہ وہ کشمیریوں کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نےگزشتہ ماہ بھارت کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بھارت کو انٹیلی جنس شیئرنگ اور دیگر امور پر باہمی تعاون کی پیشکش کی تھی۔ یہ پیشکش انہوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے طور پر کی۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک ایسے وقت پر اپنے دورے پر تھے جب دو نیوکلیائی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر تھی۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ایک خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں بھارت کے چالیس فوجی ہلاک ہوئے جس کی ذمہ داری بھارت نے پاکستان پہ عائد کی۔ بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ حملہ آور گروپ جیش محمد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یاد رہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین تین جنگیں ہوئیں۔سن 1974میں پاکستان نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی۔کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازع حصہ ہے۔دونوں کا ہی یہ کہنا ہے کہ کشمیر پر انکا حق ہے۔