نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان کا مفہوم ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ عالم کفر غالب اور عالم اسلام مغلوب ہوجائے گا۔اس پرصحابہ کرام رضی اللہ عمہ نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا کیا مسلمان اس وقت اقلیت میں ہو گے تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ کے مسلمان اکثریت میں ہوں گے مگر دین پر عمل کرنے کو ترک کر چکے ہوں گے ایسے میں لازم ہے کہ تم کتاب اللہ اور میری سنت کو لازم پکڑے رہنا فلاح پا جائو گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ دور اور زمانہ یہی آج کا زمانہ ہی ہے۔ کرہ عرض پرباون سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں۔
جبکہ مسلم اقوام کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ان تمام اسلامی ممالک کے پاس اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ بے پناہ نعمتوں کی فراوانی ہے۔ اللہ نے اسلامی ممالک میں تیل، گیس، سونا، زرخیز زمین، بہترین موسم، قیمتی معدنی وسائل کے ساتھ ان مسلم ممالک میں بہترین اور باصلاحیت و بہادر نوجوانوں کی کثرت عطا کی ہے۔ ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہے کہ ان کے بینک بیلنس اکائونٹ امریکہ،سوئس،اور دیگر یورپی ممالک میں موجود ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شہنشاہی محلات ان کی عیاشیوں، محوومستیوں، لہو لعب کی محفلیں جمانے کے لیے یورپ کے مہنگے ترین علاقوں میں اپنے نام کر رکھے ہیں۔
مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ان تمام نعمتوں کی فراوانی کے باوجود ان کے دلوں میں سے رب تعالیٰ کا اس کی عطاکردہ نعمتوں پر شکر گزار بندہ بننے کی بجائے یہ نافرمانی اور سرکشی میں اسی قدر زیادہ ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی اس قدر مضبوط ہے کہ ان اسلامی ممالک کے پاس تمام نعمتیں اور وسائل کی موجودگی کے باوجود ان سے براہ راست فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت سلب کرلی گئی ہے اسی وجہ سے آج عالم عرب امریکہ، اسرائیل، ایران اوریہود و نصاریٰ کی غلامی میں شرم ناک حد تک گہر چکے ہیں۔
مصر، شام، تیونس، یمن، بحرین، برما، عراق، افغانستان، کشمیر، اور فلسطین کی حالت زار پرسعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عالم عرب کے تمام ممالک کی مجرمانہ خاموشی ان کی اسلام سے عملاًبے رخی، بے حمیتی، بے غیرتی بلکہ اسلامی نظام سے کھلی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ اسلام دبنے یا مغلوب ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ اسلام عالم پر اپنی حقانیت کا علم لہرانے کے لیے آیا ہے۔اسی حقیقت کے پس منظر میں آج کل عالمی سطح پر تبدیلی کے حالات و آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جس میں ترکی، تیونس، لیبیا، مصر کی آمریتوں کو یہود و نصاریٰ کی وفاداری کے باعث عبرت ناک سزائیں ملیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کی بیاسی سالہ پرامن جدوجہد کے بعدوہاں کے آمرحسنی مبارک کے مظالم کی طویل داستان ختم ہوئی۔
General elections in Egypt
مصر میں عام انتخابات کے ذریعے سے اسلامی حکومت قائم ہوئی مگر غیرت مند اسلام پسندوں کا ایوان اقتدار تک عوام کی طاقت سے پہنچناامریکہ، اسرائیل، ایران، یہود و نصاریٰ اور ان کے عرب ایجنٹوں کو راس نہ آیا۔ اسلام پسند عوام کی طاقت اور ان کے انتخاب سے وہاں کے حکمران نامزد ہوئے مگر ان سے عالم کفر اور ان کے کاسہ لیسی کرنے والوں سے یہ خطرہ محسوس ہونے لگ گیا کہ اگر یہ اسلام پسند اپنے ملک مصر میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وہاں کے نظام کو درست ترتیب دینے میں کامیاب ہوگے اس کے سبب وہاں پر عدل و انصاف کی فراوانی ہوجائے گی عوام میں اخوت و بھائی چارگی پیدا ہوجائے گی۔
تو ان کے ممالک کی عوام بھی نظام اسلام کے عملاً نفاذ کی بات کریں گے جس کو وہ بذات خود برداشت نہیں کرتے ماسوائے زبانی جمع خرچ عرب ممالک کے حکمران خوفزدہ ہیں کہ تبدیلی کی صدا ان کے ایوانوں کو کہیں خاکستر نہ کر دے۔ اسی پریشانی کے باعث مصر کی اسلامی حکومت کے خلاف حکمت عملی مرتب کرنے کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں چھپے میرجعفر، میر صادق جیسے غداروں اور مادیت کی دلدل میں دہنسی ہوئی اوردنیوی عیش و عشرت کی طالب فوج نے اپنی سیاہ تاریخ و کردار کو دوہراتے ہوئے جولائی کے آغاز پر نام نہاد سیکولر اور اسلام دشمن عناصر کے مظاہروں کی آڑ میں ڈاکٹرمحمد مرسی کی حکومت پر شب خون مارکر اپنے اور اپنے آقائوں(یہود و نصاریٰ) کے ناپاک عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچایا۔
فوج کے مجرمانہ اقدام کی امریکہ ،اسرائیل ومغرب کی طرح سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات ،کویت اور دیگر عرب ممالک نے واضح حمایت کا ناصرف اعلان کیا بلکہ ان کو بھاری بھر کم مالی اعانت سے بھی نوازا۔ اسلام پسند وں نے اپنے جائز حق کے لیے پر امن مظاہروں اور دہرنوں کا اہتمام کیا۔ ایک ماہ کے طویل مدت کے احتجاج میں ان مظاہرین کے ہاتھوں کوئی نقصان سرزد نہ ہوا۔اس کے باوجود چند روز قبل مصر کے آمر سرکش اور سیکولر اور یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ وزیر دفاع اور آرمی چیف عبدالفتح السیسی نے عوام کو تشدد پر اکسانے کی ناکام کوشش کی مگر وہ اس طرح اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکا۔ تو اس نے ظلم و ستم اور جبر کا راستہ اختیار کرلیا۔
پر امن مظاہرین پر مصری افواج نے سربریت کی انتہا کرتے ہوئے تین سو سے زائد افراد کو شہید کردیا اور سات ہزار سے زائد زخمی ہوگے ہیں۔ مصری افواج نے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے اس امر کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔اسی طرح شام کی صورت حال بھی باعث تشویش ہے کہ وہاں اب تک ١یک لاکھ سے زائد مردو عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے شہید کیے جاچکے ہیں اور لاکھوں مسلمان شام سے ہجرت کرچکے ہیں۔ دوسری جانب سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات ،کویت، عالم عرب اور عالم اسلام کی جانب سے مجرمانہ خاموشی، بے حسی اور ان کی اسلامی و ملی بے حمیتی و بے غیرتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
Islamic scholar Maulana Syed Salman Nadvi Sahib
عالم اسلام کے حکمران بالخصوص سعودیہ عرب کے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خادم الحرمین شریفین ہیں ،حج و عمرہ، صوم و صلوات کے پابند ہیں اس سبب سے کامیابی ہمارا مقدر ہے باقی عملی زندگی میں ہم جو کچھ اسلامی تعلیمات کو مسخ کریں یا ان کو ترک کرتے رہیں یا ان کا مذاق اڑاتے رہیں تو اس پر ہماری کوئی گرفت نہیں ہوگی تو واللہ یہ مسلم حکمرانوں کا خیال باطل اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ مفکر اسلام اور بر صغیر کے عظیم مذہبی سکالر مولانا سید سلمان ندوی صاحب نے سورہ بقرہ آیت نمبر 85 کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
کہ اللہ پاک نے یہ فرمان مدینہ کے یہود و نصاریٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ کتاب میں سے کچھ پر ایمان لے آئو اور کچھ کا انکار کردو،تم میں سے جو ایسا کرے، اسکی سزا اسکے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب کی مار اور اللہ آپ کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ یعنی کہ اسلامی شریعت پر مکمل طور پر عمل کرنے سے راہ فرار کسی کو نہیں ہے بلکہ اسلام درست اعتقادات، عبادات کی ادائگی اور معاملات کو درست کرنے گویا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دیانت داری کے ساتھ مکمل انجام دہی ہی دراصل حقیقی اسلام ہے اور مسلمانوں کو اس بات سے اچھی طرح باخبررہنا چاہیے کہ اسلام میں سنیاسی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عالم عرب اور تمام اسلامی ممالک یک جان ہوکر مصر، شام، فلسطین، تیونس، بحرین، یمن، عراق، افغانستان، برما اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے ان کی بھر پور مدد بھی کریںاور اس کے ساتھ ہی اللہ کے حضور اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر معافی طلب کریں بصورت دیگر موجودہ ذلت و پستی جو کہ تمام اسلامی ممالک پرآج دنیا میں مسلط ہے اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب تیار ہے اس سے بچائو کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے مصر میں اسلام پسندوں کے حق میں بیان کا سامنے آنانیک و خو ش آئند امر ہے۔
لیکن اسی بیان پر قناعت نہ کی جائے بلکہ جرات و بہادری کے ساتھ مصر،شام سمیت تمام اسلامی ممالک جن پراغیار کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی ہے۔اس امر واقعہ پر امریکہ، اسرائیل، ایران اورعالم کفر کے سامنے مظلوموں مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کی دستگیری پر احتجاج بھی کیا جانا چاہیے۔ آخر میں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ ہم مسلمانوں کی نافرمانیوں، کوتاہیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے اور تمام عالم میں مسلمانوں کی غیب سے مدد و نصرت فرمائے۔(آمین) دنیا کہ فرعون و نمرود ظلم و جور کی تمام داستانیں رقم کرنے کے باوجودیہ یاد رکھیں کہ دین اسلاماور دین القیم بہر حال غالب آکر رہے گا۔
Atiq-ur-Rahman
تحریر : عتیق الرحمن mob:0313526561 e-mail:deskibaat1987@gmail.com