الریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ مملکت پر حالیہ ہفتوں کے دوران میں ایران ساختہ یا اس کے مہیّا کردہ ہتھیاروں سے حملے کیے گئے ہیں۔
انھوں نے عرب نیوز سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’سعودی عرب کی جانب آنے والے تمام میزائل اور ڈرون ایران ساختہ تھے یا اس کے مہیّا کردہ تھے۔ان میں سے متعدد شمال کی سمت سے اور متعدد سمندر کی جانب سے آئے تھے۔‘‘
وہ سعودی آرامکو کی تیل تنصیبات پرحالیہ ڈرون اور میزائل حملوں کا حوالہ دے رہے تھے۔یمن سے ایران کے حمایت حوثی جنگجوؤں نے سعودی آرامکو کے تیل صاف کرنے کے کارخانے اور تنصیبات پر متعدد ڈرون حملےکیے ہیں۔
امریکا سعودی عرب پر ان حملوں کی متواتر مذمت تو کررہا ہے لیکن صدر جوبائیڈن نے اپنا منصب سنبھالنے کے چند روز بعد ہی حوثی ملیشیا اور اس کے لیڈروں کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ان کے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حوثی ملیشیا کو امریکا کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا اور اس کے تین لیڈروں کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔
امریکا اور بعض بین الاقوامی امدادی گروپوں کا دعویٰ ہے کہ حوثی ملیشیا کو دہشت گرد قرار دینے سے یمن میں انسانی امداد کی ترسیل کا کام مشکل ہوجاتا۔امریکا اور اقوام متحدہ کے مطابق یمن دنیا میں سب سے بڑے انسانی المیے سے دوچار ہونے کو ہے۔
لیکن عادل الجبیر ان کے اس دعویٰ کو درست قرار نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حوثی ملیشیا اور اس کے لیڈروں کو دہشت گرد قرار دینے سے یمن کی امداد روکی گئی ہے اور نہ رُکے گی۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اپنے یورپی اور امریکی اتحادیوں کے علاوہ اقوام متحدہ پر بھی یہ بات واضح کرچکا ہے کہ وہ یمن کی امداد نہیں روکے گا۔
سعودی وزیر مملکت نے اس ضمن میں دہشت گرد تنظیموں کے گڑھ بعض دوسرے ممالک کی مثالیں بھی پیش کی ہیں جہاں ان تنظیموں کی موجودگی کے باوجود امداد نہیں روکی گئی ہے۔ان میں لبنان میں حزب اللہ ، افغانستان میں طالبان ، شام میں داعش اور صومالیہ میں الشباب تنظیم شامل ہے۔ان تنظیموں کی موجودگی کے باوجود دوسرے ممالک اور عالمی اداروں نے ان جنگ زدہ ممالک کی امداد جاری رکھی ہے۔
عادل الجبیر نے اپنے انٹرویو میں بالاصرار کہا کہ ’’حوثی جنگجو ہی سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔انھوں نے غیرملکی امداد چوری کی ہے اور اس کو اپنی جنگی مشین کو مالی وسائل مہیّا کرنے کے لیے فروخت کیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’حوثیوں نے 9 ،10اور 11 سال کی عمر کے لڑکوں کو لڑائی کے لیے اپنی صفوں میں بھرتی کیا ہے۔انھیں یمنی فوج کے خلاف میدان جنگ میں اتارا ہے۔ان کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے منافی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔‘‘