سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ مملکت اب تک’’ٹھوس پیش رفت نہ ہونے‘‘کے باوجود حریف ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا پانچواں دور طے کرنے پرغورکررہی ہے۔انھوں نے ایران زوردیا ہے کہ وہ خطے میں اپنا طرزعمل تبدیل کرے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016ء سے تعلقات منقطع ہیں۔دونوں ملکوں نے تعلقات کی بحالی کے لیے گذشتہ سال عراق کی میزبانی میں مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ اگر 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کیا جاتا ہے تو علاقائی ممالک کے خدشات کو دورکرنے کے لیے یہ’’نقطہ آغاز ہونا چاہیے نہ کہ اختتامی نقطہ‘‘۔
انھوں نے کہاکہ الریاض ایران کے ساتھ مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے۔اس کے لیے ایران کو ہمسایہ ممالک سے موجود بنیادی مسائل کو حل کرنے کا سنجیدہ عزم کرنے کی ضرورت ہوگی۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ایک نیاطریقہ کار تلاش کرلیا جائے گا۔
انھوں نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں کہا کہ اب تک ہم نے ایران کی طرف سے ایسا نہیں دیکھا۔اگر ہم ان فائلوں پر ٹھوس پیش رفت دیکھتے ہیں توپھرمفاہمت ممکن ہے۔
سعودی عرب شیعہ ایران کی یمن کی جنگ اورلبنان کے علاوہ خطے بھر میں مداخلت پر نالاں ہے۔ لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت نے بیروت کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کونقصان پہنچایا ہے اور سعودی عرب کے علاوہ یواے ای کے بھی لبنان کے ساھ تعلقات سردمہری کاشکار ہیں ۔
رواں ماہ کے اوائل میں ایران کے صدرابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ اگرالریاض باہمی افہام و تفہیم اور احترام کے ماحول میں مذاکرات کے انعقاد پر آمادہ ہے تو تہران مزید بات چیت کوتیار ہے۔
واضح رہے کہ 2019ء میں سعودی آرامکو کی تنصیبات پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔سعودی عرب نے ایران پراس حملے کا الزام عاید کیا تھا جبکہ تہران نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ یمن بحران پر اب بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پائی جارہی ہے جہاں سعودی عرب سمیت عرب اتحاد ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف لڑ رہا ہے۔
شہزادہ فیصل نے کہا کہ ایران حوثیوں کو بیلسٹک میزائل اور ڈرون کے پرزوں کے ساتھ ساتھ روایتی ہتھیار بھی مہیا کرتارہا ہے جبکہ ایران اور حوثی گروپ دونوں اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
انھوں نے یمن میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی قیادت میں تعطل کا شکار امن کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اس تنازع کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں کوئی مدد نہیں ملی ہے لیکن اس کے باوجود ہم پرعزم ہیں اور ہم اقوام متحدہ کے ایلچی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔