تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات پر جمی برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تہران اور ریاض نئے تعلقات کی شروعات کر دیں۔ یہ اہم ہے کہ آیا یہ دونوں اسلامی ممالک قریبی اتحادی بن سکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں علاقائی حریف سمجھے جانے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلوں میں اس سال کئی زیادہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ملکوں کے مندوبین چار مرتبہ بغداد میں اور پھر ایک مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں ملے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہران اور ریاض کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
سن 2016 میں سعودی عرب کی جانب سے شیعہ مبلغ آیت اللہ نمر النمر کو سزائے موت دی گئی تھی جس کے نتیجے میں ایران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین نے حملہ کردیا تھا۔ اس کے بعد ریاض حکومت نے تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔ اس کے علاوہ شام، یمن اور لبنان میں جاری علاقائی تنازعات میں دونوں ممالک مسلسل ایک دوسرے کی مخالفت میں متحرک رہے ہیں۔
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
اس پس منظر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے یہ کہنا کہ ”ایران کے ساتھ بات چیت باہمی اعتماد پیدا کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے میں ٹھوس نتائج کی طرف لے جائے گی،‘‘ ایک نئی پیش رفت ہے۔
جرمن شہر بون میں کارپور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی امور کے ماہر عدنان طباطبائی کہتے ہیں، ”فی الحال یہ ایک مثبت اشارہ ہےکہ بات چیت جاری ہے اور اسے روکا نہیں گیا۔ تاہم اگر ہم تہران اور ریاض کے نقطہ نظر کا موازنہ کرتے ہیں تو تہران مثبت نتائج کے لیے زیادہ پراعتماد دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں اور ناقص اقتصادی صورتحال کے باوجود تہران حکومت کو لگتا ہے کہ وہ ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ طباطبائی کے بقول، ”یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں، لیکن ایران کا سب سے بڑا مفاد خطے میں تجارتی تعلقات کو بڑھانا ہے۔‘‘
دوسری طرف سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ملک اور مصر کے بعد عرب دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی ریاست ہے۔ ایران کی تباہ کن معیشت کے لیے سعودی عرب ایک خوش آئند کاروباری شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے۔
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
لندن میں چیتھم ہاؤس نامی تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیں، ”دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں یہ پیغام بھی دے گی کہ ایران ایک علاقائی طاقت ہے جس کا ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘
وکیل کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب اپنے وژن 2030ء کے حوالے سے ملک کو سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ ہدف ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے ذریعے ہی حاصل کرسکتا ہے۔ سعودی عرب کے وژن 2030ء کے منصوبے سے مراد ملک میں معیشت، دفاع، سیاحت اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے حکمت عملی میں اصلاحات ہیں۔
سعودی عرب اپنے عسکری اتحادیوں کے ساتھ یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں باغیوں کے خلاف یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاض حکومت تہران پر حوثی باغیوں کو اسلحہ اور ڈرونز فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کرتی ہے۔ اس کے جواب میں ایران کہتا ہے کہ وہ یمن میں باغیوں کی محض سیاسی حمایت کرتا ہے۔
چیتھم ہاؤس سے منسلک صنم وکیل اس بارے میں کہتی ہیں کہ ایران کو یمن میں جنگ بندی کی عوامی حمایت کرنا ہوگی۔ ”میں اس کے بغیر بات چیت کے عمل کو حتمی نتائج کی جانب بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ رہی۔‘‘
تہران اور ریاض کے درمیان ان مذاکرات کی بحالی کی کئی وجوہات سامنے آرہی ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم نہیں کیے اور اس عمل کو ایران میں ایک مثبت نظر سے دیکھتا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب شامی صدر بشارالاسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنے کا بھی حامی ہے۔ ایران نے اس کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے قریبی اتحادی متحدہ عرب امارات نے خاموشی سے ایران کے ساتھ تناؤ میں نرمی اختیار کی ہے۔
صنم وکیل کے مطابق تناؤ کے کئی سالوں کے بعد دونوں ممالک کو اکٹھا کرنے کے پیچھے کافی وجوہات ہیں۔ ریاض حکومت کے پاس اپنی جیوپولیٹیکل پالیسی پر نظرثانی کی ایک اور اچھی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے آپریشن جاری رکھنے سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے۔ وکیل کے بقول، ”اب افغانستان کے بعد، ان کے پاس اس بات کی تصدیق ہے کہ امریکا خطے میں اپنے شراکت داروں کی حفاظت میں دلچسپی، سرمایہ کاری اور زیادہ حد تک آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
طباطبائی نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان برف پگھلنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حال ہی میں ریاض میں موجود تھے اور وہاں ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے ایک متفقہ مثبت رائے پائی جاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سعودی وفد کی جانب سے تہران میں اپنے سابقہ سفارتی دفاتر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ طباطبائی کے بقول، ”میں نہیں سمجھتا کہ فوراﹰ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفیر تعینات کر دیے جائیں گے لیکن سفارتی دفتر کا قیام ممکن ہوسکتا ہے اور یہ فی الحال ایک بہت ہی مثبت قدم ہوگا۔‘‘