تحریر: ایم ابوبکر بلوچ سعودی عرب میں ایک مشہور عالم شیخ نمر کو سزائے موت دئے جانے کے بعد ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی میں شدت آ گئی ہے جب سعودی عرب میں دہشتگردی کے الزام میں 47افراد کو پھانسی دی گئی جن میں شیعہ عالم شیخ نمر بھی شامل تھے یہ پھانسیاں مسلک کی بنیاد پہ نہیں بلکہ دہشتگردی میں ملوث ہونے کی بنا پہ دی گئی ہیں لیکن ایران کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھائو تاریخ کا حصہ ہے جولائی 1987ء میں مکہ معظمہ میں جھڑپوں کے دوران 275ایرانیوں سمیت 420عازمین کی ہلاکت پر سعودی عرب اور ایران کے تعلقات تقریباً ختم ہو کر رہ گئے تھے انہی دنوںسعودی سفارت کار موسیٰ الغامدی تہران میں سفارت خانے کی عمارت کی کھڑکی سے گر کر زخمی ہوگئے تھے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے تھے اس موقع پر ریاض سے تہران پر الزام لگایا گیا کہ غامدی کو سعودی عرب کے ایک ہسپتال میں شفٹ کرتے ہوئے تاخیر کی گئی۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد نے اپریل 1988ء میںایران سے سفارتی تعلقات مکمل طور پر ختم کر دیئے لیکن دوسری جانب 1999ء میںدونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کافی بہتری آئی اسی طرح سعودی فرمانروا شاہ فہد نے 2001ء میں الیکشن جیتنے والے ایرانی محمد خاتمی کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے خاتمی کی اصلاحاتی پالیسی کی توثیق سے تعبیر کیا۔ خاتمی نے 1997میں پہلا الیکشن جیتنے کے بعد سعودی عرب سے مفاہمت کی کوششیں کی جس سے 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہوئی۔
Saudi Arabia and Iran
شیخ نمر کی پھانسی کے بعد سعودیہ اور ایران کو ایک جیسا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ سعودیہ اور ایران کے قوانین بالکل برعکس ہیں اگر سب سے پہلے ایران کی بات کی جائے تو ایران نے ہمیشہ مسلک کی بنا پہ قتل و غارت کی تاریخ رقم کی ،قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنیوں کو جانی ومالی نقصان پہنچایا۔2016کے پہلے ہفتے میں ایران میں سنیوں کو دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد 60سے تجاوز کر گئی ۔25دسمبر 2015کو ایرانی عدالت سے 27سنی کارکنوں کو پھانسی کا حکم دیا گیا۔جنوری 2016کے شروع میںعراق میں سنیوں کی مساجد کو بم مار کر شہید کر دیا گیا عراق کی شیعہ ملیشیا نے 4مساجد کو میزائل اور راکٹوں سے اڑا دیا۔ایران میں 2008میں ایک سنی نوجوان کو اسکی کم سن معصوم بیٹی کے سامنے پھانسی دی گئی ۔ 1990میں حج کے ایام میں سعودیہ میں ایرانیوں نے سرنگ،،ٹنل،، المعصیم کے اندر گیس چھوڑ دی جس سے لاتعداد حجاج کرام وفات پا گئے۔ 1985میں اپنے بستوں میں 51کلو C4مادہ لے کر آئے تھے جو سخت دھماکے کا سبب بن سکتا تھا۔
یاد رہے کہ ایران سالانہ 30ملیار ڈالر دہشتگروں پہ خرچ کرتا ہے۔ امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایران میں کوئی سنی پارلیمنٹ کا ممبر نہیں ہے جبکہ پارلیمنٹ کے یہودی ممبرز موجود ہیں ،ایران کے دارلحکومت تہران میں مساجد کی تعمیر پہ پابندی ہے جبکہ اسی شہر میں درجنوں مندر،گرجا گھر اور آتش کدے موجود ہیںاسکے علاوہ ابوبکر،عثمان ،عائشہ اور حفصہ جیسے معتبر نام رکھنے والے سنیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے حتیٰ کہ ظلم وستم کیا جاتا ہے (نعوذباللہ)۔سوشل میڈیا پہ ایسی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جس میں سرعام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی شان مبارکہ میں گستاخانہ کلمات استعمال کئے جاتے ہیں،ابھی کچھ روز میں قبل راقم نے خود سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو دیکھی جس میں شیعہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کی ایک بڑی تصویر کو چوک میں رکھ میں تصویر پہ سر عام جوتے برسا رہا ہے۔
آخر کیوں؟؟؟ اقوام متحدہ کو ان چیزوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہئیے کیونکہ سوشل میڈیا پہ ان ویڈیوز سے شیعہ سنی فسادات میں اضافہ ہوگا،ایران کی جانب سے مسلک کی بنیاد پہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے جوکہ جنگی فسادات کا سبب بن سکتی ہے ،ہم میں سے ہر کسی کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان تمام حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گاورنہ کل قیامت کے روز ہم سب جوابدہ ہونگے دوسری طرف اگر سعودی عرب میں قوانین کی بات کی جائے تو صورتحال بالکل برعکس ہے۔
United Nations
سعودیہ میں اقلیت کا تصورتک موجود نہیں،یہاں شیعہ سنی برابر کے شہری ہیں ۔شیعہ گورنمنٹ کے دفاتر میں ملازم ہیں ،امام بارگاہوں پر پابندی نہیں ہے بلکہ شیخ نمر کی نماز جمعہ کے خطابات کی تقاریر موجود ہیں ۔محرم الحرام میں سعودیہ کے علاقہ قطیف میں شیعہ جلوس نکالے جاتے ہیں لیکن کبھی ان کے جلسے جلوسوں پہ لاٹھی چارج نہیں کیا گیا اور نہ کبھی قانون حرکت میں آیا،اسکی ایک عام سی وجہ ہے کہ اگر آپ قانون کی حدمیں رہ کر کچھ بھی کرتے ہیں تو آپکو اجازت ہے لیکن اگر آپ قانون شکنی کریں گے تو ظاہر ہے قانون حرکت میں آئے گاہمیں سعودی عرب سے بے شمار اختلافات ہونگے لیکن ہم سب کو سعودی حکومت کے اس قانون اور فراخدلی کی داد دینا ہوگی ۔محض حکومتی پالیسی پہ تنقید کرنے سے کوئی بھی قانون حرکت میں نہیں آتااور نہ ہی کسی کا سر قلم کیا جاتا ہے شیخ نمر نے سعودی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی راہ ہموار کی۔
شیخ نمر کی تقریر کے یہ الفاظ اسکے سرقلم ہونے کی وجہ بنے،، ابوبکرعمرعثمان معاویہ ،سفیان اور عائشہ کو جہنمی سمجھتا ہوں(نعوذباللہ) سعودیہ ،کویت،عراق اور شام میں امام خمینی کی ولایت فقہہ کا نظام چاہتا ہوں ۔شیخ نمر کی پھانسی کے بعد دونوں ممالک کے سفاتی تعلقات ختم ہوچکے ہیں ،تہران میں سعودی سفارت پر حملے کے بعد کئی سعودی اتحادیوں نے ایران سے دفارتی تعلقات ختم کر دئیے ہیں جن میں کویت،بحرین ،سوڈان اور جبوتی شامل ہیںجبکہ اردن نے ایرانی سفیر کو طلب کرکے ان سے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے اور عرب امور میں ایرانی مداخلت پر سخت احتجاج کیا ہے۔
ایران کو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت شامل ہے ،ابھی کچھ دن پہلے امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے داعش کو بنایا ہے وہ اس لئے بنایا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے نقشہ کو تبدیل کرنا ہے ہیلری کنٹن نے کہا کہ اس نے اتحادی ملکوں کا دورہ کیا تھا اور داعش کے ذریعے خلافت کے اعلان کی تاریخ بھی طے کر لی تھی مگر ایک دم سے حالات بدل گئے امریکہ نے ہی داعش کو اردن میں تربیت دی اور عراق میں داعش کو اسلحہ فراہم کیا گیا داعش نے عراق اور شام کے درمیانی علاقوں پہ قبضہ کیا جبکہ عراق میں ہی داعش نے سعودی عرب کی جیلوں کو تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے خبر رساں ایجنسی کے مطابق انٹر نیٹ پر اس تنظیم کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں الحایراور الطرفایہ کی جیلوں کا ذکر کیا ہے بتایا جاتا ہے کہ ان جیلوں میں القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس سے تعلق رکھنے والے بہت سے جنگجو قید ہیں۔
میاں محمد نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیاہے اور سعودی حکام سے ملاقات کی ہے جبکہ ایران سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی کیلئے پیشرفت کریں تاکہ دونوں ممالک کی دوریاں ختم ہوں ۔ہمیں وزیر اعظم کے اس فیصلہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں انہی مفادات کے تحت ملکوں سے تعلقات ترتیب دیتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اگر دو ممالک میں مابین لڑائی اور اختلافات کی وجہ سے معاملات سنگین صوتحال اختیار کر گئے ہیں تو پاکستان کو صلح کرا دینی چاہئے حالانکہ ایران ،سعودیہ کشیدگی کم کرانے کیلئے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی ہونگی کیونکہ امریکہ ہی سعودیہ اور ایران کو لڑا رہاہے اور داعش کو فروغ دے کر سعودیہ کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے لیکن پاکستان کو امریکی دبائو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ رنجشیں ختم کرانا ہوں گی۔