واشنگٹن (جیوڈیسک) ترکی نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معروف جلاوطن صحافی جمال خشوگی کے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔ ترکی نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ صحافی کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
جمال خشوگی ایک امریکی روزنامے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک کالم نگار کی حیثیت سے ملازمت شروع کرنے سے پہلے ایک ترک خاتون کے ساتھ شادی کے تصدیق نامے کیلئے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے۔ جس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔
سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خشوگی کی استنبول میں گمشدگی کے ایک ہفتے بعد بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اُن کے ساتھ سعودی قونصل خانے کے اندر کیا ہوا اور اب وہ کہاں ہیں؟
اُن کے دوستوں اور حمامیوں نے پیر کے روز سعودی قونصل خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے خشوگی کو اپنا ذاتی دوست قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے ہنگری کے دورے کے دوران پیر کے روز سعودی عرب سے یہ ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا کہ خشوگی زندہ ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ سعودی قونصلیٹ کے اہل کار محض یہ کہنے سے بچ نہیں سکتے کہ وہ قونصلیٹ سے چلے گئے تھے۔ متعلقہ حکام کو اپنے دعوے کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اُن کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ خشوگی کہاں ہیں۔ اُن کے بارے میں مختلف طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں اور مجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
خشوگی 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانہ گئے تھے تاکہ وہ اپنی ترک منگیتر کے ساتھ شادی سے متعلق قانونی دستاویزات مکمل کر سکیں۔ اُن کی منگیتر عمارت کے باہر انتظار کر رہی تھی اور خشوگی کے واپس نہ آنے پر اسے پریشانی لاحق ہو گئی۔
ترکی کے تفتیشی اہل کاروں کا خیال ہے کہ خشوگی کو قونصلیٹ کے اندر ہلاک کر دیا گیا اور اُن کی لاش کو سفارتی گاڑیو ں کے ذریعے باہر بھیج دیا گیا۔ پولیس نے اس سلسلے میں فورینزک تفتیش کی درخواست کی ہے۔
تاہم سعودی قونصل خانے نے کہا ہے کہ اسے اس بات کا علم نہیں ہے کہ خشوگی کہاں ہیں۔ استنبول میں سعودی قونصل جنرل محمد ال اوتائیبی کہتے ہیں کہ قونصلیٹ اور سفارتخانہ اُنہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہمیں اُن کے اس کیس کے بارے میں پریشانی ہے۔
انٹیلی جینس اہل کار خشوگی کی گمشدگی کے وقت سے استنبول ایئر پورٹ پر سعودی اہل کاروں کے آمد کے حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔
خشوگی گزشتہ برس کے دوران امریکہ میں مقیم رہے۔ تاہم بعد میں وہ اپنی زندگی کے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے سعودی عرب سے فرار ہو کر ترکی پہنچ گئے۔ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور اُنہیں سعودی عرب میں اصلاحات کا خود ساختہ لیڈر قرار دیتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے سعودی ولی عہد کی حمایت پر امریکی حکومت کو ہدف تنقید بنایا تھا۔
اخبار ’مڈل ایسٹ آئی‘ کے مدیر اور خشوگی کے دیرینہ دوست ڈیوڈ ہرسٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ کو ناپسند کرتے تھے اور خاص طور پر سعودی بادشاہ کے امریکہ کے صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ خشوگی سعودی صحافی تھے، اُنہوں صحافت میں نے بڑی حد تک ایک آزاد رویہ اپنایا تھا اور یوں وہ سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ لہذا اُنہیں سعودی عرب میں حقیقی طور پر جان کا خطرہ تھا۔
ڈیوڈ ہرسٹ نے مزید کہا کہ ترکی میں 40 لاکھ لوگ عربی بولتے ہیں جن میں مصر، شام اور یمن سے فرار ہو کر پناہ لینے والے ہزاروں افراد بھی شامل ہیں۔ لہذا اگر علاقے کے ممالک اپنے ایسے لوگوں کی جان کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ترکی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خشوگی کے معاملے میں ترک قیادت دباؤ کا شکار ہے۔
اُدھر امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ تاہم وہ اس معاملے پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔