تحریر : حبیب اللہ سعودی عرب کے مشرقی شہر الاحساء میں ایک مسجد پر حملے کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق اور سات زخمی ہوگئے ہیں۔مسجد امام الرضا میں دوخودکش بمباروں نے حملہ کیا جن میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور دوسرے نے نمازیوں پر فائرنگ کر دی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ میں ملوث ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں گذشتہ سال اہل تشیع کی دو مساجد میں بم دھماکوں کے بعد سے سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔دہشت گرد تنظیم داعش نے ان دونوں بم دھماکوںکی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی طرح اگست میں سعودی عرب کے جنوب مغربی شہر ابہا میں ایک خودکش بمبار نے مسجد میں نماز کے دوران خود کو اڑا دیا تھا جس سے پندرہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ خودکش دھماکہ داخلی سکیورٹی کے ذمہ دار خصوصی اسلحہ اور حربی یونٹ (ایس ڈبلیو اے ٹی، سوات) کے ہیڈ کوارٹرز میں واقع مسجد میں ہوا تھا۔اکتوبر میں بھی سعودی عرب کے مشرقی شہر صیھات میں ایک مسلح شخص نے ایک اجتماع پر فائرنگ کردی تھی جس سے پانچ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔مشرقی شہر الدمام میں مئی میں مسجد العنود کے باہر ایک حملہ آور کی جانب سے بارود سے بھری کار کو دھماکے سے اڑا نے کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔سعودی عرب کے مشرقی صوبے القطیف میںبھی نمازجمعہ کے دوران ایک مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا تھاجس میں اکیس افراد جاں بحق اور اسّی سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے عوامی اتحاد کو پارہ پارہ اور سرزمین حرمین شریفین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش قرار دیاجبکہ حکومت پاکستان سمیت تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت ساٹھ سے زائد مسلم ملک ہیں ۔خلیج اور مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ مسلمان ملکوں کے پاس تیل و معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ ان کے پاس افرادی قوت اور زرمبادلہ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ داخلی طور پر امن و امان کی بربادی کی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ہر جگہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور لسانیت کی بنیاد پر تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ میدانوں میں شکست کھانے والے مسلم ملکوں میںباہمی لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کی سازشوںمیں کامیاب نظر آتے ہیں۔عراق، شام اور مصرسمیت دیگر عرب ملکوں کے حالات تشویشناک ہیں تو پاکستان میں بھی قتل و غارت گری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔دشمنان اسلام بہت دیر سے کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کو بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کی کیفیت سے دوچار کیاجائے ۔ اسلام دشمن قوتوں کی ہمیشہ یہ سازش رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے اور باہم لڑائی جھگڑے کھڑے کئے جائیں۔
اس مقصد کے تحت سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں یہ کھیل کھیلنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ ماضی میں یہاں مظاہرے اور نامعلوم افراد کی طرف سے سعودی فورسز پر حملے بھی ہوئے جس پر سینکڑوں افراد گرفتار کئے گئے اور ان میں سے بعض کو سخت سزائیں سنائیں گئیں تاہم سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے ملک کے رہائشیوں کوپرامن رہنے اور اتحاد کی فضا برقرار رکھنے کی ترغیب دی ہے۔اب ایک بار پھر سے دشمنان اسلام وہی سازشیں دہرا رہے ہیں اور فرقہ وارانہ تعصبات کو خاص طور پر ہوا دی جارہی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ سعودی عرب کے جن شہروں میں حملے کئے جارہے ہیں وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اس لئے دشمنان اسلام نے یہاں پر نظریں مرکوز کررکھی ہیں اور وہ یہاں نفرتوں کے سلسلے پروان چڑھانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اپنے مذمو م ایجنڈے پورے کرنے کا موقع مل سکے۔
Saudi Mosque Attack
ان حالات میں قطیف اور الاحساء کی مساجدپر حملے بہت بڑی سازش ہے۔ بیرونی قوتوں نے پہلے یمن میں بغاوت کو سنی شیعہ مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوششیںکر کے مسلم ملکوں میںفتنہ و فساد برپا کرنے کی کوششیں کیں لیکن کامیاب نہیں ہو سکیں تاہم ایسے حملوں کے بعد ان سازشوں کے زور پکڑنے کا اندیشہ ہے۔ سعودی اداروں کی جانب سے اس خدشہ کا اظہارکیاجاتارہا ہے کہ شیعہ آبادی والے علاقوں میں تخریب کاری و دہشت گردی ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے کچھ عرصہ قبل تیل کی تنصیبات اور شاپنگ مالز پر ممکنہ حملوں کے خدشے کے پیش نظر سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کردیا گیا تھا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ حملہ سے برادر اسلامی ملک کی تشویش اور خفیہ رپورٹیں درست ثابت ہوئی ہیں۔ابتدائی رپورٹس میں الاحساء کی مسجد میں دھماکہ سے چار افراد کے جاں بحق ہونے کا کہا گیا ہے لیکن یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ سعودی عرب کے سینئر علماء کی کونسل ان حملوں کی واضح طو رپر مذمت کرتے ہوئے غیرملکی ایجنڈے پر عمل پیرا دہشت گردوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے چکی ہے۔قطیف میں حملہ کے بعدکونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فہد بن سعد الماجد کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ سعودی عوام کا شعور وآگہی ان دہشت گردوں کے آگے سب سے بڑا سد راہ ہے۔کونسل کے سیکرٹری جنرل محمد بن الناشوان کا کہنا ہے کہ مساجد میں خودکش حملے قابل نفرت اورمجرمانہ فعل ہے جس کا اسلام یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انھوں نے تمام شہریوں ،علماء اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ باہمی اتحاد کو مضبوط بنائیں اور وہ اسلام دشمن قوتیں جو گذشتہ کئی عشروں سے سعودی مملکت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کررہی ہیں’کے مذموم عزائم ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل کی یہ باتیں انتہائی فکر انگیز ہیں جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے خودکش حملوں سے بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی صورت سعودی عرب میں شروع نہیں ہونا چاہیے۔وہاں مسلمانوں کے دو حرم بیت اللہ اور مسجد نبوی ہیں۔ یہ خطہ پوری مسلم امہ کی محبتوں و عقیدت کا مرکز ہے وہاں فتنہ وفساد اور قتل و غارت گری کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ جو لوگ ان حملوں میں ملوث ہیں وہ یقینا دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور مسلم ملکوں میں کسی مسلمان کا قتل تو درکنار غیر مسلم کے قتل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔
اس لئے ایسا کرنے والوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے اوردشمنان اسلام کی تیارکردہ سازشوں کے خاکوں میں رنگ نہیں بھرنا چاہیے۔ مسلم ملکوں کا داخلی امن و استحکام بہت ضروری ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں، علماء کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین متفقہ طورپر کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کریں کہ سعودی عرب کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازشیں کرنے والوں کے مذموم عزائم ناکام بنائے جاسکیں۔ اس مسئلہ پر کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستا ن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے اس عفریت سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل اور ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔