دوحہ (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب اور اتحادیوں کی قطر پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پہلی بار دوحہ پہنچ گئے۔ ریاض نے دوحہ کے ساتھ طویل عرصے سے جاری بحران کو جنوری میں ختم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔
سعودی عرب کے حقیقی حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آٹھ دسمبر بدھ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے، جہاں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثّانی نے ان کا استقبال کیا۔ اطلاعات کے مطابق بدھ کی شب دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں کئی اہم امور پر بات چيت ہوئی ہے۔
سن 2017 میں سعودی عرب اور اس کے کئی دیگر عرب اتحادیوں نے مشترکہ طور پر قطر پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ہی اس کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ اس کی وجہ سے خطے میں ایک تلخ تنازعے کی ابتدا ہوگئی تاہم رواں برس جنوری میں سعودی عرب نے اس سفارتی بحران کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
قطر سے متعلق اس تنازعے کی ابتداء سن 2017 میں اس وقت ہوئی، جب محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا ولی عہد مقرر کیا گيا، اس کے بعد سے دوحہ کا یہ ان کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔
اسی ماہ خلیجی ممالک کی تعاون تنظیم ’گلف کوآپریشن کونسل‘ (جی سی سی) کی سربراہی کانفرنس ہونے والی ہے اور اسی سلسلے میں محمد بن سلمان خلیجی ممالک کے دورے کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں دوحہ ان کی تیسری منزل تھی۔ اس سے قبل انہوں نے عمان اور متحدہ عرب امارت کا دورہ کیا اور بدھ کے روز دبئی ایکسپو میں شرکت کے بعد ہی وہ دوحہ پہنچے تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ خارجہ پالیسی پر اپنے تنازعات ختم کرنے پر اتفاق کیا جس کے بعد جی سی سی کا یہ پہلا سربراہی اجلاس ہو گا۔
‘گلف کوآپریشن کونسل’ کے سربراہی اجلاس کے سلسلے میں شہزادہ محمد بن سلمان کو ابھی بحرین اور کویت کا دورہ کرنا ہے اور امکان ہے کہ اسی ہفتے وہ ان ممالک کے حکمرانوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یہ دورے ایک ایسے وقت کر رہے ہیں جب عالمی طاقتیں سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی طرح سعودی عرب بھی ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف پابندیوں کا حامی ہے۔
قطر پر پابندیوں کی وجہ سے جی سی سی کے درمیان تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ گرچہ ثقافتی، مذہبی اور قبائلی تعلقات کی بنیاد پر رشتے اب بھی برقرار ہیں، تاہم ایران اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ بعض دیگر امور کے حوالے سے بھی اتفاق کے بجائے سب کی الگ الگ پالیسی ہے۔
عمان، کویت اور قطر نے تہران کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے ہیں جبکہ سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ عالمی امور اور خطے کے دیگر مسائل کے اس تناظر میں خلیجی ممالک کی یہ سربراہی کانفرنس بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے قطر کی ناکہ بندی کر رکھی تھی جسے گزشتہ جنوری میں مشترکہ طور پر ختم کرنے کے بعد سے قطر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں ریاض اور قاہرہ نے دوحہ میں اپنے نئے سفارت کار مقرر کر دیے ہیں۔
لیکن متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ابھی مکمل طور پر سفارتی تعلقات بحال نہیں کیے۔ قطر نے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ اپنے تجارتی روابط بحال کر لیے ہیں تاہم بحرین کے ساتھ ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے۔ تنازعے کے خاتمے کے بعد ہی قطر کے امیر نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور وہ اس دوران ولی عہد محمد بن سلمان سے کئی بار ملاقات بھی کر چکے ہیں۔
خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی سے نہ صرف عالمی برادری گہری تقسیم کا شکار ہوئی بلکہ اس سے سماجی تعلقات کے منقطع ہونے کے ساتھ ہی خلیجی ریاستوں کا دیرینہ اتحاد بھی ٹوٹ گيا۔ لیکن پھر سعودی عرب نے اس سفارتی بحران کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور اب حالات معمول پر لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔