تحریر: منذر حبیب سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1932ء میں پیش آنے والے ان واقعات کی یاد کو تازہ کرتا ہے جب مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعودنے ایک بکھرے ہوئے ملک کو متحد کیا اور اسلامی اصولوں پر مبنی ایک متحدہ مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔ پندرہ جنوری 1902میں شاہ عبدالعزیز نے دارالحکومت ریاض کو واگزار کروایا اور اپنے ورثے کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کی بدولت علاقے میں آل سعود کی حکمرانی واپس آئی جہاں وہ دو ایسی مملکتوں پر حکمرانی کر چکے تھے جو جزیرة نما عرب اور اس کے باہر وسیع علاقے پر محیط تھیں جن میں سے پہلی کو گزرے 250سال بیت چکے تھے۔ اس مملکت کے بانی نے آئندہ 31سال پوری یکسوئی کے ساتھ منتشر و شورش زدہ مملکت کو متحد کرنے میں صرف کر دیے۔ شاہ عبدالعزیز 1953میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہوںنے اپنی عمر کے آخری دو عشرے ایک جدید اور پرامن ملک کی بنیادیں رکھنے میں صرف کئے۔ بانی مملکت کے نظریات ان کے بعد مسند نشیں ہونے والوں میں منتقل ہوئے اور وہ بھی پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے بزرگ کے نقش قدم پر چلے تاکہ ملک کو ترقی یافتہ بنایا جائے۔ اس عمل میں ہر احتیاط کارفرما رہی کہ عقیدے کے اصولوں سے انحراف نہ کیا جائے۔
شاہ سعود نے سب سے پہلے 1953سے 1964ء تک زمام اقتدار سنبھالی۔ ان کے بعد شاہ فیصل شہید 1964سے 1975ء تک برسراقتدار رہے جن کے بعد شاہ خالد آئے جو 1982میں وفات پاگئے۔ ان کے زمانے میں تیل کی آمدنی کی خردمندی سے استعمال کر کے مملکت نے تمام جہتوں میں نمایاں ترقی کی جس سے اس کی معیشت مضبوط ہو گئی اور اقوام عالم میں اس کا اپنا جائز مقام حاصل ہوا۔ 1982ء سے لیکر 2005ء تک زمام اقتدار شاہ فہد بن عبدالعزیزکے ہاتھ میں رہی۔ یکم اگست 2005ء کو شاہ فہد کی وفات پر حکمران خاندان اور عوام نے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو سعودی عرب کا چھٹا بادشاہ خادم الحرمین شریفین اور وزیر اعظم بنانے کا عہد کیا۔سعودی عرب کی خارجہ پالیسی جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، اقتصادی، امن و سلامتی، سیاسی اصولوں اور حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی تشکیل میں سب سے اچھی ہمسائیگی کی پالیسی، دوسرے ملکوں کے داخلی امور میں عدم مداخلت، خلیجی ممالک اور جزیرہ عرب کے ساتھ تعلقات کو مستحکم تر کرنا، عرب اور اسلامی ملکوں کے مفاد عامہ کی خاطر ان سے تعلقات کو مضبوط کرنا، ان کے مسائل کی وکالت کرنا، غیر وابستگی کی پالیسی اپنانا، دوست ممالک کے ساتھ تعاون کے تعلقات قائم کرنا اور عالمی و علاقائی تنظیموں میں مئوثر کردار ادا کرنا شامل ہے۔
سرزمین حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا دینی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ مسجد الحرام، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور حج کے مقدس مقامات کے خادم ہونے پر سعودی حکام کو یقینی طور پر فخر محسوس ہوتا ہے کیونکہ زائرین عمرہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا واقعتا ایک اعزاز ہے۔مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور ترقی کیلئے مملکت کی کاوشیں شاہ عبدالعزیز کے دور سے لیکر اب تک کئی گنا ہو چکی ہیں۔ حرمین شریفین اور مقدس مقامات میں متعدد توسیعی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سعودی حکومتوں نے مسجد الحرام، مسجد نبوی، منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں توسیع اور ترقی کے کئی منصوبے مکمل کئے ہیں جن میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا 19اگست 2011سے شروع کیا گیا مسجد الحرام کا عظیم الشان تاریخی توسیعی منصوبہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس توسیع کے بعد یہاں 25لاکھ مزید نمازیوںکی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ اس توسیع کے مرکزی دروازے کا نام باب شاہ عبداللہ رکھا گیا ہے۔یہ توسیعی منصوبہ مسجد الحرام کے شمال اور شمال مغرب میں واقع چار لاکھ مربع میٹر اراضی پر محیط ہو گا۔ اس میں مطاف کی توسیع بھی شامل ہے جبکہ تمام نئی عمارتیں ایئر کنڈیشنڈ ہوں گی۔ یہ عظیم تر توسیعی منصوبہ بنیادی ضروریات کی تمامتر خدمات، سازوسامان بالخصوص صفائی ، امن وامان کے جدید نظام اور پینے کے پانی کے فواروں جیسی سہولیات سے مزین ہے۔
اسی طرح شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی جانب سے مسجد نبوی کی توسیع کے احکامات صادر فرمائے جس سے مسجد نبوی میں مزید 16لاکھ نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوئی ہے ۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکی جانب سے شروع کئے گئے ان توسیعی منصوبوں پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور اقتدار میں بہت کام ہوا اور یہ توسیعی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں۔ سعودی عرب کے پاکستان سے تعلقات ہمیشہ بہت مضبوط و مستحکم رہے ہیں۔کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ان رشتوں میں کوئی کمزوری نہیں آئی بلکہ دن بدن ان میںاضافہ ہی ہوا ہے۔ سعودی عرب کا قومی دن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ امسال بھی اس دن کی مناسبت سے مسلم خطوں و ملکوں میں امن و سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں کی جائیں گی۔ سفارت خانوں میں خاص طور پر ہر سال پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں اس لئے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثارو قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتدا سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملاانہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف دونوں ملکوں کو قریب کرنے کیلئے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے زبردست کوششیں کیں جس پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورسبھی مسلم حکمرانوں کو ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں۔شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں ۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں سعودی عرب کے نئے سفیرنواف سعید المالکی نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ ان کی پاکستان آمد پر زبردست خوشی کا اظہار کیا گیاہے۔ وہ پاکستان میں ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر چکے ہیں اس لئے انہیں یہاں کے حالات سے مکمل آگاہی حاصل ہے۔ سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے قومی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور سی پیک منصوبہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت سعودی عرب سعودی ویژن 2030منصوبہ میں بھی پاکستان کی شمولیت کی خواہشمند ہے۔ ہم پاکستان کی ترقی و استحکام دیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ سمیت ہر مشکل وقت میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر سعودی سفیر کی جانب سے جن جذبات کا اظہا رکیا گیا ہے پوری پاکستانی قوم ان کی قدر کرتی ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ برادر اسلامی ملک کو بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے اور انہیں دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔