سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب 21 اور 22 نومبر کے درمیان جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کریگا جو اس بار کورونا وائرس کی وبا کے سبب ورچؤل ہوگی۔ اجلاس میں زندگی کے تحفظ اور ترقی کی بحالی جیسے موضوعات پر توجہ دی جائےگی۔
سعودی عرب نے پیر 28 ستمبر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس بار جی 20 کا سربراہی اجلاس 21 اور 22 نومبر کے دوران آن لائن ہوگا اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت عالمی رہنما دارالحکومت ریاض میں جمع نہیں ہوں گے۔ اس اجلاس کی صدارت ملک کے فرما روا شاہ سلمان بن عبد العزیز السعود کریں گے۔
سعودی حکام کے مطابق اس مرتبہ کے اجلاس میں جہاں، ”کورونا وائرس کی وبا کے دوران پیدا ہونے والے مسائل اور خطرات پر بات چیت ہوگی وہیں بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ کر، زندگیوں کی حفاظت اور ترقی کی پھر سے بحالی جیسے موضوعات پر توجہ دی جائے گی۔” بیان کے مطابق، ”جی 20 نے کورونا کی تشخیص، علاج، اور ویکسین کی تیاری، اس کی تقسیم اور اس تک رسائی کی سہولت کے لیے 21 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا تعاون کیا ہے۔”
بیان میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے اثرات سے عالمی معیشت بری طرح متاثر ہوئی اور اس کے تحفظ کے لیے، جی 20 ممالک نے اب تک 11 کھرب ڈالر سے بھی زیادہ کی رقم مہیا کی ہے۔ جی 20 گروپ نے ترقی پذیر ممالک کے لیے قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کی بھی ایک اسکیم شروع کی ہے۔
اس پروگرام کے تحت جن غریب ممالک کو اس برس تقریباً 14 ارب ڈالر کی رقم بطور قرض ادا کرنی تھی وہ اس رقم کو ادا کرنے کے بجائے اس کا استعمال اپنے ملک میں صحت کا نظام بہتر کرنے اور سماجی فلاح و بہود کے پروگرام پر خرچ کر سکتے ہیں اور قرض بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب نومبر میں جی 20 چوٹی اجلاس منعقد کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن خام تیل سے ہونے والی آمدنی میں شدید کمی کے باعث وہ خود معاشی مندی کی مار جھیل رہا ہے۔ شاہ سلمان نے ماضی کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے 2017 میں اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا تب سے عالمی سطح پر سعودی عرب کے خلاف ہونے والی نکتہ چینی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
2018 میں محمد بن سلمان اور سعودی حکومت کی بعض عوام مخالف پالیسیوں کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کے بعد سے محمد بن سلمان اور ملک کی شبیہہ بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بھی الزامات لگتے رہے ہیں اور ایسی صورت میں اگر جی 20 اجلاس کے لیے تمام عالمی رہنما ریاض میں جمع ہوتے تو ملک کی ساکھ بہتر ہو
سکتی تھی تاہم ورچوول کانفرنس کا وہ اثر نہیں پڑیگا جس کی اسے توقع تھی۔