سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان کے تاریخی دورے پر آ رہے ہیں۔ پاکستان کے دورے کے بعد ولی عہدمحمد بن سلمان بھارت کے دو روزہ دورے پر بھی جائیں گے ۔اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص نے مائند سیٹ بنا لیا ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کے درمیان ”کچھ لینے اور کچھ دینے” کا ہی رشتہ ہے۔ دو مسلم اکثریتی ممالک میں مذہبی بنیادوں پر دینی جذبہ یقینی موجود ہے لیکن اسے بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے تحت جوڑ دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ سرزمین حجاز تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے خصوصی اور اہمیت رکھتا ہے اس میں خصوصی طور پر کسی مخصوص ملک یا پاکستان کو سرفہرست رکھنا اس لئے ممکن نہیں کہ اسلام کے ناطے دنیا کے تمام مسلمانوں کے نزدیک سر زمین حجاز ، بیت اللہ شریف اور مدینہ منورہ کے علاوہ اسلام کی سربلندی کا ایک استعارہ ہے۔
تاہم مشرق وسطیٰ میں مسلم ممالک کے درمیان باہمی اختلافات اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک کے وسائل پر غیر مسلم ممالک کا غلبہ ہوتا جارہا ہے ، لیکن ان وجوہات کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں ہے کیونکہ اس وقت سعودی عرب کے جدت پسند ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر ہونگے۔ ولی عہد کی آمد سے قبل سعودی اتحادی افواج کے سربراہ راحیل شریف پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کے اعلیٰ حکام سے خصوصی ملاقاتیں کیں جو یقینی طور پر سرکاری سطح پر ہونے والی ملاقاتیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ سعودی عرب اپنی مملکت کے دفاع کے لئے یمن میں موجود حوثی باغیوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جنگ میں مشغول ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا تعلق کسی نہ کسی طور پر سعودی۔یمن جنگ سے جوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ پاکستانی افواج کے سابق سربراہ اس وقت سعودی اتحادی افواج کی سر براہی کررہے ہیں۔گو کہ پاکستان تواتر سے وضاحت دیتا رہا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک ایران کے خلاف کسی فوجی کاروائی کا حصہ نہیں بنے گا ، لیکن اس بیانیہ پر بار بار تحفظات نے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کی مختلف صورت سامنے لائی جاتی ہے ۔ جس سے عمومی تاثر یہی ابھرتا ہے کہ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات موجودہ حکومت کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے بھرپور تعاون اس لئے کررہے ہیں تاکہ یمن کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کسی مبینہ” خفیہ معاہدے ”پر عمل پیرا کیا جاسکے ۔
ہمیں ان خبروں کو حقیقت سمجھنے سے قبل اس بات کا ادارک کرنا چاہیے کہ سعودی عرب نے وژن 2030کے تحت500ارب ڈالرز سے زاید منصوبے میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا ۔ اکتوبر 2018میں ایک بہت عظیم منصوبے پر عالمی سرمایہ کاروں کو بھی دعوت دے چکاہے اور تیل مصنوعات پر انحصار کم کرتے ہوئے سعودی عرب قدامت پسندی کے تصور کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ سعودی حکمرانوں نے سرمایہ کاری کے لئے جہاں اپنی مملکت میں بیرون سرمایہ کاروں کو دعوت دی تھی تو سعودی سرمایہ کاروں کی توجہ بیرون ملک بھی مبذول ہے۔ سعودی صحافی کے قتل اور یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ سمیت مختلف ممالک نے سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور خاص کر سعودی صحافی جمال خشوگی کو لے کر کئی اہم ممالک نے ریاض میں منعقد ”فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو” کانفرنس میں امریکا سمیت کئی ممالک نے بائیکاٹ بھی کیا تھا تاہم کئی اہم ممالک اور بین الاقوامی سرمایہ کار بھی آئے اور اربوں ڈالرز کے یاداشتوں پر دستخط بھی ہوئے ۔سعودی عرب کی اہمیت کو کسی صورت کوئی ملک نظر انداز نہیں کرسکتا تاہم اسے کمزور کرنے کے لئے سازش ضرور کرسکتا ہے۔
اس وقت سعودی عرب وژن 2030سے بڑا ”ون بیلٹ ون روڈ ” کا عظیم منصوبہ دنیا بھر کی توجہ کا پُر کشش مرکز بنا ہوا ہے۔ سی پیک منصوبہ چین اور پاکستان کے درمیان بہت بڑا منصوبہ ہے ۔ پاکستان نے سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری کے لئے تمام اہم ممالک کو دعوت دی ہوئی ہے ۔ اس لئے سعودی ۔پاکستان تعلقات کو سرمایہ کاری کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں ہمیں ” کچھ لو ، کچھ دو ” کے فارمولے میں سرمایہ کاری منصوبوں ، معاہدوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ گو کہ اس وقت منفی پروپیگنڈوں میں سی پیک منصوبے کے تحت افواہوں کا بازار بھی گرم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تاہم اس وقت ان معاملات کو ایک جانب رکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ خاص طور ہمارا الیکٹرونک میڈیا نان ایشوز کو ایشو بنا نے میںبعض اوقات تجاوز کرجاتا ہے۔ انہیں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن سیاسی جماعتوں بھی برد باری کی ضرورت ہوگی اور اس بات کی قوی امید ہے کہ سی پیک منصوبے کے لئے چینی صدر کی آمد کے موقع پر اسلام آباد میں موجودہ حکمراں جماعت نے جو رویہ اختیار کیا تھا اور چینی صدر کا دورہ موخر ہوا تھا ۔ اس سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حوالے ایک اچھا تاثر نہیں گیا تھا ۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں یمن جنگ کے بعد کئی مدوجزر آئے ہیں ۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان پاکستان کی عسکری قیادت نے بہترین کردار ادا کیا ہے ۔ پاکستان کی عسکری قیادت کے دورہ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں دوروں سے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان بھی سرد مہری ختم ہوئی ، عرب ممالک نے پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی کے لئے موجودہ حکومت کی بروقت امداد کی ہے۔ عسکری قیادت کے بعد سیاسی قیادت نے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ گو کہ معاشی بحران کے گرداب میں پاکستان اب بھی الجھا ہوا ہے لیکن سعودی عرب کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری ہونے کی وجہ سے عالمی برادری کو ایک اچھا تاثر جائے گا اور پاکستان کے ارباب اختیار اپنی توجہ بیرون سرمایہ کاری کو پاکستان میں لانے پر مرکوز رکھے تو یقینی طور پر پاکستان کئی اہم مسائل سے باہر نکل سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے بعد بھارت کا دورہ کرنا بھی وژن 2030کے مطابق ہے۔ تاہم ہمیں بھارت کے مکروہ کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ بہتر تعلقات کو مزیدفروغ دینا ہوگا ۔ چین اس وقت ہمارا آزمایا ہوا اتحادی ہے ۔ حکومت جس ملک کو بھی سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے توسب سے اپنے ملکی مفاد کو مدنظر رکھے۔ ملکی سا لمیت اور بقا کے لئے خود انحصاری کی پالیسی کو اپنائے۔
چین ، متحدہ عرب امارات ، قطر اور سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات میں فروغ اور خطے میں اہم ملک کی حیثیت سے پاکستان پر عالمی اعتماد کو بحال کرانے کے لئے موجودہ حکومت کے پاس اچھا موقع ہے ۔ افغانستان ، بھارت اور ایران پڑوسی ممالک ہیں۔ جن سے اہم ایشوز پر مسلسل رابطے ضروری ہیں ۔ سعودی عرب کی بڑے وفد کی پاکستان آمد اور سرمایہ کاری پر پاکستانی عوام خیر مقدم کرتے ہیں ۔ حکومت سرمایہ کاری کے معاہدوں کو پارلیمنٹ میں بھی سامنے لائے تاکہ یہ تاثر دور ہوسکے کہ سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت یمن ، ایران معاملات کے بجائے سرمایہ کاری اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ منفی پروپیگنڈوں کے اس تصور کو زائل کرنے ضرورت ہے ۔ یقینی طور پر پاکستان کے ارباب اختیار نے سہولت کے بجائے ضرورت کو بھی پیش نظر رکھا ہو گا۔