تحریر : سید انور محمود پاکستانی عوام پوری دنیا میں کہیں بھی ہونے والی دہشت گردی کی بھرپور طریقے سے مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان جو خود دہشت گردی کا بدترین شکارہےلیکن دہشت گردوں کے مقابلے میں کبھی بھی جھکا نہیں، ان چاراسلامی ملکوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہے جو گزرئے ہوئے ماہ رمضان 2016 میں دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ان دہشت گردوں کا جن کا درحقیقت کوئی مذہب نہیں اور جو انسانیت کے سب سے بڑھے دشمن ہیں ، رمضان میں انہوں نے باری باری چار اسلامی ملکوں کو نشانہ بنایا اور 300 سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی۔ دہشت گردی کے ان چار بڑے واقعات سے پوری دنیا ہل کر رہ گئی ۔پہلا نشانہ ترکی تھا، 22 جون مطابق 16 رمضان کو استنبول ایرپورٹ پر تین خود کش حملے کیے گئے ۔ 45 کے قریب افراد مارے گئے، انٹیلی جنس اداروں کو شبہ ہے کہ اس کارروائی کا ماسٹر مائنڈ داعش کا چیچن کمانڈر تھا۔ یکم جولائی مطابق 25رمضان، بنگلادیشی دارالحکومت میں دہشت گردی ہوئی، یہ ڈھاکا کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا، اس دہشت گردی میں 22افراد مارے گئے اکثریت غیر ملکیوں کی تھی، اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ۔ دو جولائی مطابق 26رمضان عراقی دارلحکومت بغداد میں دو کار بم دھماکوں میں 200 سے زائد افراد کی جانیں ضایع ہوئیں، بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی، حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ۔
چار جولائی مطابق29 رمضان دہشت گردوں نے 24 گھنٹوں کے دوران سعودی عرب کے مشرقی شہر قطیف، ساحلی اورتجارتی شہر جدہ اور مسلمانوں کےمقدس شہر مدینہ منورہ میں 4خودکش دھماکے کیے، جس میں پانچ سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے، ابھی تک کسی بھی دہشت گرد تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ابھی دہشت گردی کے ان تینوں واقعات کی داخلی تحقیقات جاری ہے، اس کے بعد ہی دھماکوں کی سازش کرنے والوں کی شناخت کا پتا چل سکے گا۔ ویسے تینوں واقعات میں داعش کے طریق واردات کی نشانیاں ہی پائی جاتی ہیں، دھماکے کرنے کے انداز اور محرکات کا کھرا داعش ہی کی جانب جاتا ہے۔چند ہفتے قبل ہی داعش کے ایک لیڈر نے رمضان المبارک میں دنیا بھر میں اپنے دشمنوں کے خلاف حملوں کی دھمکی دی تھی۔ عام لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ داعش جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں شاید یہ دہشت گرد گروہ اب اپنے داغ دارتشخص میں مزید کسی خوفناک پہچان کا اضافہ نہیں کرے گا، لیکن اس دہشت گرد گروہ نے جو دراصل انسانیت کےدشمن ہیں پیر کی شام مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کےنزدیک دھماکا کرکے ہماری سوچ کو غلط ثابت کردیا ہے۔
مدینہ منورہ میں ہونے والی دہشت گردی میں حملہ آور کا ہدف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہونا تھا، تاہم دھماکا کار پارکنگ ایریا میں ہوا، دھماکے کے وقت سیکیورٹی چیک پوسٹ پر اہلکار افطار کر رہے تھے۔ سعودی حکام نے مسجد نبوی کے قریب کئے گئے دھماکے کے خودکش حملہ آور کی شناخت 18 سالہ سعودی شہری عمرعبدالہادی عمر جعید العتیبی کے نام سے کی ہے، سعودی حکام کا کہنا ہے کہ عمرعبدالہادی مطلوب دہشتگرد تھا۔ مشرقی شہر قطیف میں پیر 4 جولائی کی شام مسجدعمران پر خودکش حملہ کیا گیا، دھماکے میں خودکش حملہ آور ہلاک ہو گیا، دھماکے میں ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ساحلی اورتجارتی شہر جدہ میں واقع امریکی قونصل خانے کے قریب ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سےسے اڑالیا جس کے باعث دوسیکورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے،سیکیورٹی ترجمان نے بتایا کہ حملہ آور نے قونصل خانے کےقریب ایک مسجد کے ساتھ سحری کے وقت سوا دو بجے اپنی گاڑی پارک کی اور جونہی دو سیکیورٹی اہلکار اسے مشتبہ جان کر اس کے قریب آئے تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، مقامی میڈیاکےمطابق دھماکامسجدکے دروازے کےپاس ہی کیاگیاتھا۔جس کے نتیجے میں دہشت گردخود ہلاک ہو گیا تھاجبکہ سیکیورٹی اہلکاروں کو معمولی زخم آئے۔
Gulzar Khan
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 4 جولائی کو جدہ میں امریکی قونصل خانے کو نشانہ بنانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والا خودکش حملہ آور عبداللہ گلزار خان پاکستانی شہری تھا اور جدہ میں گذشتہ بارہ سال سے اپنی بیوی اورساس سسرکے ساتھ مقیم تھا۔ عبداللہ گلزارخان بطور ڈرائیور سعودی عرب میں کام کررہاتھا۔ پیرچارجولائی کے اس واقعہ میں مشتبہ حملہ آور ہلاک اور دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جنھوں نے حملہ آور پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ سعودی حکام کےمطابق خودکش حملہ آور کی خودکش جیکٹ مکمل طورپرنہیں پھٹ سکی تھی، جس کےسبب جسم سےجڑےدیگربم فوری طورپرناکارہ بنادیے گئے، یہ واضح نہیں کہ خودکش حملہ آورکاہدف کیاتھا۔ واضع رہے کہ پیر4جولائی کو جدہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب دہشت گردوں کا یہ دوسرا حملہ تھا، اس سے پہلے 2004 میں بھی امریکی قونصل خانے پر دہشت گردوں نےحملہ کیا تھا،جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن اس واقعہ میں نہ توکوئی پاکستانی ہلاک ہوا تھا اور نہ ہی اس وقت ہونے والی دہشت گردی میں کوئی پاکستانی شامل تھا۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں ۔ آج بھی دس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کررہے ہیں اور سعودی عرب کی ترقی کےلیے کوشاں ہیں۔ سعودی حکومت اور سعودی عوام نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور عوام نے بھی سعودی عرب کا ہمیشہ خاص خیال رکھا ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستان کے سفیر منظور الحق نے سعودی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی صیح ترجمانی کی ہے، پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کسی ایسے شخص سے کوئی تعلق نہیں جو کہ سعودی عرب میں پرتشددکارروائی میں ملوث ہو۔ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ جب بھی کہیں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے ہم پاکستانی ڈر جاتے ہیں کہ دہشت گردوں میں کوئی پاکستانی شامل نہ ہو۔ شاید جدہ کا خودکش حملہ آور عبداللہ گلزار خان پاسپورٹ کی حد تک پاکستانی شہری ہو، کیونکہ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں لاکھوں افغانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ دیے گئے تھے جو ایک غلط پالیسی تھی۔ اگر سعودی حکومت گذشتہ 20 سال میں پکڑئے جانے والے پاکستانی منشیات کے اسمگلروں کی صیح طرح چھان بین کرتی تو اس میں 95 فیصد افغانی تھے، لیکن ان کے پاس پاسپورٹ پاکستانی تھے۔ اگرعبداللہ گلزار خان واقعی ایک پاکستانی ہی ہے تو یہ دہشت گردوں کی ایک منظم سازش ہے تاکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خراب ہوں، کیونکہ ایک شخص جو گذشتہ12 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہو یقیناً اس کو بھی کسی سازش کے زریعے ہی دہشت گردی کےلیے تیار کیا گیا ہوگا۔
عبداللہ گلزارخان نے جدہ میں دہشت گردی کی کوشش کی تھی جبکہ اسی شہر جدہ میں ایک سڑک کا نام ایک پاکستانی فرحان خان کے نام پر ہے۔ پاکستان کے اس قابلِ فخر سپوت فرحان خان نے 2009 میں جدہ میں سیلابی ریلے کے اندر سے 14 افراد کی زندگی بچای تھی جبکہ پندرویں شخص کو بچانے کےلیے جاتے ہوئے فرمان خان خود اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ سعودی حکومت نے فرحان خان کی اس قربانی کو بہت سراہا تھا۔ 1979 میں دہشت گردوں کے قبضے سے خانہ کعبہ کو آزاد کرانے اور سعودی شہریوں کو با حفاظت بازیاب کرانے والے بھی پاکستانی کمانڈو تھے۔ ہمیں سعودی حکوت اور عوام سے یہ امید ہے کہ وہ کسی ایک دہشت گرد کی وجہ وہاں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے ساتھ اپنا رویہ نہیں بدلینگے اورتمام پاکستانی اپنے معمول کے مطابق اپنے کام سر انجام دینگے۔ تمام پاکستانی مقدس ماہ رمضان میں چار مسلم ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور سعودی عرب کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کے ساتھ ہونگے۔