تحریر : ریاض جاذب مفت میں عمرہ اور حج کا لالچ دے کر منشیات کا مکروہ دھندہ کرنے والے گروہ ایسی لوگوں جس میں خاص طور پر غریب خواتین شامل ہوتی ہیں کو جھانسہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جوکہ اپنی روائتی تنگ دستی کی وجہ سے عمرہ یا حج کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ ایسے گروہ زیادہ تر خواتین کوا پنا شکار بناتے ہیں جنہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ حقیقی مستحق کی تلاش میں تھے جنہیں وہ عمرہ یا حج اپنے خرچہ پر کرائیں تاکہ ان کی نیکی ان کے لیے کام آئے۔ گروہ کے ممبران یہ بھی عذر پیش کرتے ہیں کہ ان کے وفات پاجانے والے والدین یا دیگر لواحقین کی خواہیش تھی کہ وہ عمرہ یا حج کریں مگر وہ اپنی خواہیش اپنے ساتھ لے کر فوت ہو گئے ہیں اب ان کی خواہیش اور اپنے فرض کی تکمیل کی خاطر وہ کسی مستحق کو یہ سعادت کرانا چاہتے ہیں۔
یہ لوگوں کی روائتی غربت اور لالچ کو سمجھتے ہیں اور ایسے غریب لوگوں کی نفسیات سے بھی واقف ہوتے ہیں جوہ ساری عمر اپنے ذاتی خرچ سے حج یا عمرہ نہیں کرسکتے انہیں عمرہ کا رعایتی پیکج کا لالچ دیتے ہیں اور ایک طرفہ ٹکٹ کے برابر رقم کا بندوبست کئے جانے کے صلہ میں اپنا تھوڑا سا سامان سعودی عرب پہنچانے کا کہتے ہیں۔ عام طور پر ایسی اشیاء بظاہر ساتھ لے جانے میں کوئی امر مانع نظر نہیں آتا۔ ایسے گروہ کھبی کھبار بالکل مختلف انداز میں لوگوں کو جھانسہ دیتے ہیں اورایسے مسافر جو کہ سعودی عرب جارہے ہوں ان کو عین روانگی سے کچھ دیر قبل ائرپورٹ پر ملتے ہیں اور ایک یا دو یا اس سے بھی زیادہ ڈبے کارٹون پکڑا دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ دوائی ہے وہاں دوائی بہت مہنگی ہوتی ہے۔ اورہمارے عزیز جوکہ سعودی عرب میں ہیں کے لیے یہ دوائی لازمی ہے یہ پورے ایک یا چھ ماہ کی دوائی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ یہ دوائی اپنے ساتھ لے جائیں تو ہم آپ کو اس کے بدلے میں کچھ خاص رقم یہاں یا وہیں سعودی عرب میں ادا کردیں گے یہ دوائی ہمراہ آدمی ائرپورٹ سے باہر آپ سے خود ہی وصول کر لے گا۔
ایک اور بھی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ ایسے پاکستانی مرد جو سعودی عرب میں باسلسلہ روزگار مقیم ہوتے ہیں اور وہ اپنے گھروالوں خاص طور پر بیوی یا ماں کو عمرہ کے لیے اپنے پاس بلوانا چاہتے ہیں مگر وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے وہ بھی اس گروہ کے چکر میں آجاتے ہیں اور اپنے خاندان کی خواتین کو ان کی معاونت سے بلواتے ہیں ۔ ایسی صورت میں یہ گروہ ان خواتین کو” محرم” کی بھی سہولت فراہم کرتے ہیں ۔سعودی عرب میں امیگریشن کے قوا نین اور چیکنگ انتہائی سخت اور جدید ترین ٹیکنا لوجی سے ہوتی ہے عام طور پر اس سے بچ کر جانا ممکن نہیں ہوتا ۔مگر منشیات کامکروہ دھندہ کرنے والے یہ گروہ اس کا ”رسک ” لیتے ہیں اور منشیات یا ممنوع اشیاء کو دوسرے لوگوں کو ذریعہ بنا رکر ان کے ذریعے بھجواتے ہیں ۔ یہ اس قدر چالاک ہوتے ہیں کہ اپنا کوئی ثبوت نہیں چھوڑ تے اگر وہ آدمی چاہیے وہ مرد ہے یا عورت باہر نکلنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ فوری طور پر اپنا سامان (منشیات یا ممنوع اشیائ) ائرپورٹ سے باہر یا کسی دوسرے محفوظ مقام پر وصول کرلیتے ہیں ۔ ایسے منظم گروہ کے لوگ اس مسافر کو ہر مرحلہ اور مقام پر ”واچ” کرتے ہیں کامیابی یا ناکامی کی ہر دو صورت میں انہیں لمحہ لمحہ کی خبر ہوتی ہے اور اکثر ایسے مسافر جن کے ساتھ ان کا سامان (منشیات یا ممنوع اشیائ)ہوتا ہے کے ساتھ ان کا ایک اور آدمی بھی سفر کررہا ہوتا ہے مگر دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی ہر دو صورت میں یہ پیامبر آگے پیغام دیتا ہے اور گروہ کے باقی لوگ ”الرٹ” ہوجاتے ہیں ۔سادہ لوح غریب مسافر ساری صورت حا ل بے خبر جب امیگریشن کی ”پکڑ” میں آجاتا ہے تو وہ ہکا بکا ہوکر رہ جاتا ہے۔
Saudi Arabia Jail
قصہ مختصر پھر گرفتاری ، قید ، جرمانہ کی سزاء منشیات کی مقدار زیادہ ہونے پر پکڑے جانے والوں کو موت سزاء تک ہوجاتی ہے ۔ لالچ میں مارے (پکڑے )گئے لوگوں کی حالت زار سے یہاں(سعودی عرب) میں کوئی واقف ہوتا ہے نہ کوئی مدد کرنے کو تیار مگر ایک ایسا دفتر ضرور ہوتا ہے جس کو اس کی پوری خبر (معلومات) ہوتی ہے وہ ہمارے ملک کا سفارت خانہ اور اس کا سفارتی عملہ جس کو ایسی صورت میں سعودی حکومت فوری طورپر اطلاع (معلومات ) پہنچاتی ہے مگر ہمارے ملک کا سفارت خانہ کے متعلقہ عملہ(سفارت کار) تمام تر معلومات ہونے کے باوجود زیادہ تر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور گرفتار شخص سے نہ تو ملاقات کی جاتی ہے اور نہ اس کوئی قانونی معاونت / سہولت کاری کی سہولت دی جاتی ہے جوکہ پاکستان کے اپنے اور انٹرنیشنل قوانین کے خلاف ہے ۔ ان دنوں ایک اور مسئلہ بھی بڑی شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ ایسے پاکستانی مرد و عورتیں جو اس جرم یا کسی اور جرم میں گرفتار ہوئے اور ان کو قید اور جرمانہ کی سزاء ہوئی وہ اپنی سزاء بھی مکمل کرچکے ہیں مگر کئی ایک بڑے عرصہ سے پھر بھی قید ہیں ۔ اس کی بھی بڑی وجہ ہمارے سفارت خانہ کی سستی یا نااہلی ہے کیونکہ سفارت خانہ سے سفارت خانہ معاملات ہوتے ہیں وہ سفارت کاری سے حل نہیں کیئے جاتے اکثر ایسے کیسوں میں ضروری دستاویزات کو مکمل نہیں کیا جاتا ۔ ہمارا سفارت خانہ اس کا کوئی ”فالواپ ” نہیں کرتا ۔ دوسری ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے قید تو کٹ چکی ہوتی ہے مگر جرمانہ کی رقم کا کوئی انتظام نہ ہونے پر یہ لوگ ایک لمبے عرصہ تک مقید رہتے ہیں ۔ سعودی عرب کے کئی شہروں میں ہزاروں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جس میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے ۔پاکستان کے میڈیا میں تواتر کے ساتھ ایسی خبریں آرہی ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ(جس کا قلمدان خود وزیر اعظمکے پاس ہے) سفارت خانہ اور سفارت کاروں جن کی یہ ذمہ داری ہے انہیں فوری طور پر اس کا نوٹس لیں اور سکریٹری خارجہ کی نگرانی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جس کو سعودی عرب میں متعین سفیراس کو براہ راست خود دیکھیں اس کمیٹی کا ”ٹائم فریم دیا جائے جس کے اندر رہتے ہوئے تمام تر ضروری کاروائی و اقدامات کئے جائیں ۔ تاکہ اس کا کوئی ٹھوس رزلٹ بھی برآمد ہو پہلی ترجہی کے طور پر ایسے تمام پاکستانیوں جوکہ قید مکمل کرچکے ہیں ان کو واپس پاکستان لایا جائے ۔اور اس میں خواتین اور بچوں کی رہائی کو تو ایجنڈا میں سرفہرست رکھا جائے ۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی توجہ خاص سے یہ مسئلہ فوری حل ہوسکتا ہے پھر دیر کس بات کی ہے۔