تحریر : مصعب حبیب امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ کی بھاری اکثریت نے نائن الیون بل پرامریکی صدر اوباما کا ویٹو مسترد کر تے ہوئے نائن الیون میں ہلاک ہونے والے افراد کو سعودی عرب پر مقدمہ دائر کرنے کا حق دیا ہے۔ اوبامہ کے آٹھ سالہ دور حکومت میں یہ پہلا ویٹو مسترد کیا گیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان نے ویٹو کو 76 کے مقابلے میں 348 ووٹوں سے مسترد کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر اوباما کے ویٹو کو منسوخ کرنے کیلئے سینٹ میں بھی ووٹنگ کی گئی۔ ویٹو منسوخ کرنے کے حق میں 97 اور مخالفت میں ایک ووٹ ڈالا گیاجبکہ تین ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ نائن الیون حملوں کی سعودی عرب نے ہمیشہ مذمت کی اور شروع دن سے یہ بات کی ہے کہ اس حوالہ سے ان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی۔ ان حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے جو تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا اس نے بھی قرار دیاتھا کہ سعودی عرب ان حملوں میں کسی طور ملوث نہیں اورنہ ہی اس سلسلہ میں کسی قسم کے کوئی ثبوت ملے ہیں لیکن اس کے باوجود منظم منصوبہ بندی کے تحت اس پروپیگنڈا کو ہوا دی جارہی ہے جس کا مقصد صرف سعودی عرب پر دبائو بڑھانا ہے۔امریکہ میںنائن الیون کے واقعہ کو تقریبا پندرہ برس گزر چکے ہیں لیکن اس کے اصل حقائق تاحال منظر عام پر نہیں آسکے ۔ بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات ایسے ہیں جن کا آج تک جواب نہیں دیاگیا۔
امریکی حکومت بھی اس واقعہ کے حوالہ سے بار باراپنا موقف تبدیل کرتی رہی ہے جس پر معروف امریکی صحافی رابرٹ فسک سمیت دیگر ماہرین نے کئی طرح کے سوالات اٹھائے اور کہا کہ پینٹا گون پر حملہ کرنے والے طیارے کے اجزاء مثلا انجن وغیرہ کہاں غائب ہو گئے؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے فولادی بیم پگھلنے کیلئے 1480سینٹی گریڈ درجہ حرارت چاہیے تھا تو پھر چند سیکنڈ میں یہ بیم کیسے پگھل کر ٹوٹ گئے؟۔ جن ہائی جیکرز کو اس واقعہ میں ملوث ٹھہرایا گیا ان میں سے کئی عرب ملکوں میں زندہ نکلے جس کے بعد ایف بی آئی کو بھی شرمندگی اٹھاتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ اسے ہائی جیکرز کی شناخت سے متعلق یقین نہیں ہے اور پھر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ جہازوں کا کوئی پرزہ حتیٰ کہ کوئی ایک نٹ بولٹ تک صحیح سلامت نہیں ملا لیکن ایک ہائی جیکر کا پاسپورٹ حادثہ سے کچھ فاصلے پر سڑک سے صحیح سلامت مل گیا’ یہ کیسے ممکن ہوا؟۔اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی پوری عمارت خاکستر ہو گئی مگر ہائی جیکر کے ہاتھ سے لکھا گیا ایک ”نوٹ” امریکیوں کے ہتھے لگ گیا جسے آگ نے چھوا تک نہیں۔
ایسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو پوری دنیا سمیت خود امریکیوں کے ذہن میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنیاد پر وہ سرکاری سطح پر کئے جانے والے دعووں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہی وہ حقائق ہیں کہ جن کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل جب نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے بعض افراد اور انشورنس کمپنیوں کی طرف سے امریکہ میں مین ہٹن کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں سعودی حکومت کیخلاف مقدمہ دائر کیا گیا تو امریکی عدالت نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیاکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے اس حوالہ سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ بہرحال امریکیوں کی طرف سے نائن الیون حملوں کا الزام القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بعض سعودی شہریوں پر لگایا گیا اورالقاعدہ کی قیادت کے افغانستان میں موجودگی کا دعویٰ کر کے بارود کی بارش برساد ی گئی۔ اس دوران کسی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا اورکسی کو مجرم ثابت نہیں کیا گیا بلکہ خود ہی جج اور خود ہی منصف والا معاملہ کر کے امریکہ نے پوری دنیائے کفر کو ساتھ ملایا اور نہتے افغانوں پر چڑھائی کرکے دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا۔
Drone Attack
نائن الیون کے بعد جاری نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو بھی بہت زیادہ نقصانات سے دوچار اور ہزاروں شہریوں کو ڈرون حملوں کے ذریعہ شہید کر دیا گیا۔اسی طرح امریکیوںنے عراق پر حملہ کر کے وہاں بھی لاکھوں مسلمانوںکا خون بہایا۔ عراق دس لاکھ فوج رکھنے والا مسلم دنیا کا ایک اہم ملک تھا جسے پچھلی دہائیوں میں امریکہ و اسرائیل نے پہلے سازش کے تحت عربوں اور ایران سے لڑا یا’اس کی قوت کو کمزور کیا اور پھرایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزامات لگا کر اس کی بچی کھچی قوت کو برباد کر دیا گیا۔ اتحادی ممالک نے لیبیا اور شام کی بڑی جنگی قوت کو بھی تباہ کیااور اب سعودی عرب کا گھیرائو کرنے کی مذموم سازشیں کی جارہی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ خود جان بوجھ کر سعودی عرب سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔ وہ سعودی عرب کو اپنا اتحادی کہتا رہا اور بہت فائدے اٹھائے گئے لیکن درحقیقت اندرونی طور پر مسلسل سعودی عرب کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
کہاجاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین اختلافات میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب امریکہ نے مصر کی ایک مذہبی و سیاسی جماعت کی حمایت پر اصرا ر کیا۔ پھر شام کے مسئلہ نے شدت اختیار کی تو وہی امریکہ جو بشارالاسد کی اعلانیہ مخالفت کرتا تھا اور ابھی تک اس کا دعویدار ہے’ نے بشار حکومت کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پرکسی قسم کی کاروائی سے انکار کرتے ہوئے اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لے لیا۔ اس دوران روس اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر شام کے نہتے سنی مسلمانوں پر بمباری کرتا رہالیکن امریکہ کی طرف سے اس ظلم کا ہاتھ روکنے کیلئے کوئی کردارا دا نہیں کیا گیا جس پر یہ معاملہ بہت زیادہ طول پکڑ گیا اور لاکھوں مسلمان مہاجر بن کر ترکی کی سرحد پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسی طرح جب یمن کے مسئلہ کا آغاز ہوا۔
ایک منتخب حکومت کے سربراہ کوجلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب کو کھلی دھمکیاں دی جانے لگیں اور اس کی سرحدوں پر حملے شروع کر دیے گئے تو اس پر بھی امریکی حکومت نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور پھر ایسے ہی جب داعش جیسے گروہ پروان چڑھے اور دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب میں بھی خودکش حملے کئے جانے لگے تو بجائے اس کے کہ اس حوالہ سے سعودی حکومت کا کھل کر ساتھ دیا جاتا۔
Salman Bin Abdulaziz
سعودی عرب یہ بات شدت سے محسوس کرتا ہے کہ اس کا واضح جھکائو ایران کی طرف ہے اور خلیج میں اسے جن مسائل کا سامنا ہے اس کے حل کی کوششوں میں سعودی حکومت کا ساتھ نہیں دیا گیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور عالم اسلام کے اتحاد کی کوششیں اچھی نہیں لگیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ملک ہمیشہ ان کے باجگزار بن کر رہیں یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی 34ملکی اتحاد کی خبریں آئیں اور یہ کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح مسلمان ملکوں کو اتحادی ممالک کے کلچ سے نکالا جائے انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو سکی۔ سعودی عرب کی نئی قیادت نے اپنے حالیہ دور اقتدار میں کئی جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے ہیں جس سے بیرونی قوتیں تشویش میں مبتلا ہو گئی ہیں۔
امریکہ کی طرف سے پندرہ سال بعد نائن الیون کا ذمہ دار سعودی عرب کو ٹھہرانے کا پروپیگنڈا بھی اسی تلملاہٹ کا نتیجہ ہے۔امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ کی جانب سے نائن الیون پر باراک اوبامہ کا ویٹو مسترد کرنا طے شدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ سعودی قیادت کی جانب سے ضرورت پڑنے پر امریکہ میں موجود 750ارب ڈالر کے اثاثوں کی فروخت اور ویژن 2030ء کے تحت اپنی معیشت کے تیل پر انحصار کی بجائے صنعت و تجارت کو مضبوط کرنے کی پالیسیوں کا اعلان بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہے۔
Pakistan and Saudi
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ملک اپنے مشترکہ دفاع کے ساتھ ساتھ مضبوط معاشی پالیسیاں بھی تشکیل دیں تاکہ اغیار کی سازشوں کا متحد ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکی و دیگر ملک اگر باہم ایک رہتے ہیں تو پندرہ سال بعد نائن الیون حملوں میں سعودی عرب کو ملوث کرنے کی کوششیں ان شاء اللہ ناکام رہیں گی۔ آخر میں میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ نائن الیون کا مقدمہ سعودی عرب پرتو نہیں بنتا تاہم اس کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کا مقدمہ امریکیوں پر ضرور بنتا ہے اور وقت آنے پر یہ مقدمات ضرور بنیں گے۔