تاریخ کی ستم ظریفی کہی جائے یا کچھ اور اسلام کی چادر و چاردیواری کو جب بھی نقصان پہنچا تواس میں ملوث ہاتھ کسی مسلم فرد یا مسلم ملک کا نظر آیا۔ میر جعفر و میر صادق اور شریف مکہ جیسے لوگ اپنے شخصی مفادات کی خاطر، اپنے غیر مسلم آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر دین اسلام کی من پسند تشریح و توضیح کرتے رہے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے بس چہرے بدلے ہیں فکر منافقت اپنے عروج پر کام کر رہی ہے۔
مجھ پر ایک الزام عائد کیا جاتا ہے کہ میں ایران کے مدمقابل سعودیہ عرب کے شاہوں کی مذمت کرتا ہوں اور اپنے ملک پاکستان کی قیادت کے غلط فیصلوں کو زیب قرطاس کرنے کی بجائے صرف سعودیہ عرب کی سیاسی پالیسیوں کی مذمت کرتارہتا ہوں۔ ان حضرات کی خدمت میں جواب پیش خدمت ہے کہ میں ایران و اسرائیل اور امریکہ و بھارت کو اسلام دشمن ملک سمجھتاہوں کہ مذکورہ ممالک کوئی دقیقہ یا لمحہ ایسا نہیں چھوڑتے جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش نہ کرتے ہوں ،اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان ممالک کی تمام سازشوں سے سبھی لوگ کسی ناکسی دائرہ میں معترف ہیں ان کو اہمیت دینا یا ان کو بیان کرنا بے فائدہ ولاحاصل امر ہے۔
ان کے جواب میں مسلمانوں کو صرف اور صرف علمی وعملی میدان کام کر نے کی ضر ورت ہے تاکہ ان کی جانب سے پیش آمدہ صورتحال سے نمٹاجاسکے۔رہی بات پاکستان کے سیاستدانوں کی تو اس مسئلہ پر اتناکہہ دینا کافی سمجھتاہوں کہ پاکستان اگرچہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیااور بدقسمتی سے اسلام ومسلمان ہی یہاں پر مظلوم ہیں۔مگر اصل امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام عبادتوں کا منبع ومرکز پاکستان نہیں کہ اس میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی تو کل اسلام پر یہ حکم لگ جاتاہے یا لگا دیاجائے گا جب کہ اس کے برعکس سعودیہ عرب جہاں کا بادشاہ خود کو خادم الحرمین الشریفین کے لقب سے ملقب کرتاہے اور حقیقت میں بھی مسلمان من حیث المجموع سعودیہ عرب کا مرکز و مصدر اسلام سمجھ کر اس کی تقلید کرتے ہیں تو اس کا لازمی تتمہ یہ ہوتاہے کہ وہاں کی اچھائی کو عالم اسلام کی اچھائی سمجھا جاتاہے اور وہاں سے فروغ پانے والی برائی کو عالم اسلام کی برائی تصور کیاجاتاہے ،تو لہذا ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہم سعودیہ عرب کے بادشاہوں پر بنسبت دوسروں کے کڑی نظر رکھیں اور جب بھی جہاں بھی وہ مصلحت ،منافقت،یا سیاسی ونجی مفادات کی بناپر اسلام کی تعبیر وتشریح کو مسخ کرنے کی کوشش کریں،یا امریکہ واسرائیل ،ایران یا کسی دوسری غیر اسلامی ملک کی مدد ومعاونت اسلام کے نام لیوائوں کے کومٹانے یا کچل دینے کی صورت میں کریں تو ہمیں اس کی تمام تر عزت و عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ببانگ دہل مذمت کرنی چاہیے۔
King Abdullah bin Abdul Aziz
ظاہر ہے اس امر کے جواب میں کسی کا ایجنٹ یا عمرہ و حج کی ہوس کے طعنہ زنی کا سامنا کرنا پڑے گا تو امت مسلمہ کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے اور اتحاد ملت اسلامیہ اور قیام خلافت اسلامیہ کی جدوجہد کو سامنے رکھ کر ہضم کر لیا جائے مگر اس نیک کام سے کسی صورت راہ فرار اختیار نہ کی جائے۔
آخر میں سعودی عرب کے سیاسی اسلام کی ایک تازہ جھلک قارئین ملاحظہ فرمائیں۔ رمضان المبارک کے آغاز پر امت مسلمہ کے نام سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے جو بیان جاری کیا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے” کہ چند جاہل مذہب اسلام کی مخصوص تعبیر پیش کر کے فساد و شر پہیلا رہے ہیں۔
کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اصلاح یا تبدیلی کی آڑ میں ملک میں فساد پہلیانے میں کامیاب ہوجائے گا”۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ کو جو اس نے اسلام دشمنی کا بیج مصر،تیونس،ترکی،شام وعراق میں بویاہے اس کی آگ اس کے اپنے محلوں تک پہنچتی نظر آرہی ہے تو اس خوف زدہ ہوکر اسلام پسندوں کو مٹھی بھر اور جاہل و نام نہاد مصلح کے ناموں سے تعبیر کیا ہے ،سعودی شاہ کو یادرکھناچاہیے کہ امریکہ و ایران دوستی جو کہ صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے اور محفوظ رکھنے کے لیے رچی جا رہی ہے کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی۔
بلکہ یہی دوستی ہی اس کے اقتدار کے محلات سے نکلنے کا ذریعہ بنیں گے۔اس لیے لازم ہے کہ سعودی حکمران اسلام پسندوں کو کچلنے کی پالیسی ترک کرکے ان کا دست بازو بنے ،سعودیہ کی جیلوں میں قید تمام مصلحین کو باعزت بری کرے،مصر میں یہود ونصاری کے ایجنٹ اور ہزاروں مسلمانوں کا خون چوسنے والے وحشی درندے ابوالفتاح السیسی حمایت فورا ترک کرتے ہوئے مصر میں حقیقی جمہوریت بحال کرانے میں اپنا قائدانہ کردار اداکرے۔
شام و عراق کی صورت حال کو حل کرانے میں بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔سعودیہ عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اگر مصر، شام، عراق، فلسطین میں مسلمانوں کی مدد نہیں کرتا تو اپنی تباہی و بربادی اور اقتدار سے بے دخلی کے دن گننا شروع کردے کیوں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتااور قدرت الٰہیہ کا اصول ہے کہ بے حس و بے غیرت کو لمبی عمر تو دے دیتی ہے مگر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے جرم عظیم کو کبھی معاف نہیں کرتی۔اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اس سے ہر لمحہ پناہ مانگنی چاہیے۔