ریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب میں اذان کی آواز گونجتے ہی دکانوں کے دروازے بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اب حکومت کے نئے فیصلے کے بعد صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ کیا نماز کے اوقات میں دکانیں بند کرنے کی پابندی اب ختم ہو چکی ہے؟
دارالحکومت ریاض میں اذان ہو رہی ہے لیکن کنگڈم سینٹر مال یا ‘برج المملکة‘ میں کھانے پینے کی متعدد دکانیں کھلی ہیں اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پورے سعودی عرب میں یہ ناقابل تصور بات تھی۔ ماضی میں سعودی عرب کی مذہبی پولیس نماز کے اوقات میں شاپنگ سینٹرز سمیت تمام دکانیں بند کروا دیا کرتی تھی۔
ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے سعودی حکومت نے گزشتہ ماہ اضافی فیس کے عوض کاروبار چوبیس گھنٹے چلانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس فیصلے کے بعد سے یہ الجھن پیدا ہو چکی ہے کہ اب نماز کے اوقات میں دکانیں وغیرہ بند کرنا پڑیں گی یا نہیں؟ ریاض کے چند مالز میں اسے حکومت کی نئی پالیسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور وہ اس حساس معاملے میں آخری حدوں تک جا رہے ہیں۔ ریاض کے برج المملکة میں واقع ایک برگر شاپ کے منیجر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو اپنے سعودی مالک کا وہ پیغام دکھایا، جس میں درج تھا، ”حکومت نے دکانوں، ریستورانوں اور مارکیٹوں کو چوبیس گھنٹے کھلا رہنے کی اجازت دی ہے، جس میں نماز کے اوقات بھی شامل ہیں۔‘‘
مغرب کی نماز کے وقت برج المملکة میں اس برگر کی دکان کے علاوہ کئی دیگر دکانیں بھی کھلی ہیں اور اپنے گاہکوں کو کھانا فراہم کر رہی ہیں۔ اسی طرح دارالحکومت کے ایک اور النخیل مال میں بھی عشاء کے وقت دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ ان دونوں مالز میں کئی دکاندار ایسے بھی ہیں، جو کاروبار بند کر کے نماز کے لیے گئے ہیں لیکن کئی دکانیں ایسی ہیں، جو ماضی کے برعکس کھلی ہیں۔
ایک ایشیائی کافی شاپ کے منیجر فرانسس کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”یہاں کی زیادہ تر دکانیں نماز کے اوقات میں اب کھلی ہی رہتی ہیں۔‘‘ وہاں موجود ایک اور دکان کے منیجر کا کہنا تھا، ”جو ملازمین نماز پڑھنا چاہتے ہیں، وہ پڑھ سکتے ہیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ کام کریں۔‘‘ اس منیجر کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر تو ویسے ہی غیرمسلم ہیں اور وہ پہلے اپنا وقت بس ضائع ہی کرتے تھے۔
النخیل مال کے ایک منیجر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ”ابھی تک تو کسی نے نہیں کہا کہ دکان بند کرو لیکن اگر پولیس نے کہا تو میں بند کر دوں گا۔‘‘ تین برس پہلے اسی مال میں مذہبی پولیس کا سب کو ڈر رہتا تھا اور نماز کے اوقات میں یہ پولیس سب کو دکانوں سے باہر نکال دیتی تھی۔
یورپین کونسل کے خارجہ امور کی کونسل کے فیلو ایمان الحسین کا کہنا ہے، ” چوبیس گھنٹے دکانیں کھلی رکھنے کے مبہم حکومتی فیصلے کا دکاندار فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی پولیس کی غیرموجودگی میں، جو اس نظام کو نافذ کرنے کی ذمہ دار تھی۔‘‘
فجر کے نماز کے بعد تمام دکانوں کو دن میں چار مرتبہ بند کرنا پڑتا تھا۔ عمومی طور پر ایک نماز کے لیے تیس منٹ تک کاروبار بند رکھا جاتا تھا۔ ایڈوائزی شوریٰ کونسل کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ قوانین میں نرمی سے سعودی معیشت کو سالانہ اربوں ریال کا فائدہ ہو گا۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ خاتون ماہر کیرن یانگ کا کہنا ہے، ”نماز کے اوقات میں دکانیں بند کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینے سے ملازمین کی کام کی صلاحیت بڑھ سکتی ہے اور مجموعی طور پر بھی کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب سعودی حکومت بھی چاہتی ہے کہ ایسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو تاکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹا جا سکے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان حالیہ چند برسوں میں متعدد اصلاحات متعارف کروا چکے ہیں۔ اس حوالے سے انہیں ملک کے قدامت پسند حلقوں کی شدید مخالفت کا بھی سامنا ہے لیکن وہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس سعودی عرب کی مذہبی پولیس نے متعدد ٹویٹس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نماز کے اوقات میں دکانیں کھلی رکھنا منع ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ نماز اسلام کا سب سے بنیادی ستون ہے۔ گزشتہ ماہ سعودی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ ایک لاکھ ریال تک کی فیس کے عوض دکانیں چوبیس گھنٹے کھلی رکھی جا سکتی ہیں جبکہ اس اعلان میں نماز کے اوقات کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا تھا۔
مزید الجھن اس وقت بڑھی، جب سعودی عرب کے العربیہ ٹیلی وژن نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ چوبیس گھنٹے دکانیں کھلی رکھنے کے فیصلے میں نماز کے اوقات بھی شامل ہیں۔ لیکن بعد ازاں انہیں یہ ٹوئیٹ اس وقت ہٹانا پڑی، جب ایک حکومتی اہلکار نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔
دوسری جانب بڑے مالز کے برعکس سعودی عرب کی چھوٹی دکانیں اب بھی نماز کے اوقات میں باقاعدگی سے بند کی جا رہی ہیں۔ ایک سعودی فارماسسٹ کا عشاء کی نماز کے وقت النخیل مال میں کافی اور میٹھا خریدتے ہوئے کہنا تھا، ”ابھی کچھ وقت لگے گا۔ حکومت فی الحال ردعمل جانچ رہی ہے۔ اگر کوئی بڑا ردعمل نہیں آتا تو ہو سکتا ہے کہ سرکاری سطح پر اعلان کر دیا جائے۔‘‘