تحریر : عبد الغنی شہزاد چھ عرب ممالک اور قطر کے درمیان جاری کشیدگی کے بارے میں ہر پاکستانی پریشان اور فکرمند ہے کیونکہ مملکت پاکستان اور ان کے عوام کے تعلقات عرب دنیا کے اکثر ممالک کے ساتھ غالبا اچھے ہیں ان ممالک کی کشیدگی کے آثرات ہم پر پڑسکتے ہیں.حکومت پاکستان اور ترکی کو امن کے قیام کیلئے آگے بڑھنا ہوگا بصورت دیگر اسلامی ممالک کے غیر سنجیدہ رویہ سے امت مسلمہ ایک بہت بڑے بحران کاشکار ہوسکتی ہے.قارئین کیلئے چند معلوماتی اور تجزیاتی سطریں پیش خدمت کرنا چاہوں گا وہ یہ،اردگردسمندروں میں گھرا قطر کازمینی راستہ صرف سعودی عرب سے ملحق ہے جو گذشتہ روز بند کردیا گیا.
قطر کی درآمدات اور خوراک کا انحصار سعودی عرب کے ذریعے ہونے والی تجارت پر ہے۔اسی طرح قطر ائیرویز قطر کی معاشیات میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب کے فضائی راستے بند کردینے کے بعد قطر ائیرویز کا دنیا کے ساتھ رابطہ ایران کے ذریعے رہ گیا ہے جو کہ خاصا طویل ہوجائے گا۔متحدہ عرب امارات ،بحرین اور سعودی فضائی حدود بند کرکے قطر کا فضائی محاصرہ بھی مکمل کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے قطر میں اشیائے خوردو نوش کی قلت کا خدشہ پیدا ہوا ہے دوسری جانب حکومت ایران نے شہری ریاست کے باشندوں کو قحط سے بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر منصوبہ بندی شروع کردی ہے. پاکستان بہت مشکل میں ہے۔ سعودی عرب کی خاطر ایرانی ہمسائے سے کیسے جنگ کر لے۔ اوپر سے ہمارے موجودہ عرب مہربان یعنی قطر سے بھی سعودی عرب نے کُٹی کر دی ہے۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر، یمن اور مالدیپ نے قطر کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ قطر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ قطریوں کو اپنے ملک سے نکلنے اور اپنے شہریوں کو قطر سے واپس آنے کے لئے نہایت مختصر مہلت دیتے ہوئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے کہا ہے کہ وہ قطر سے آنے اور وہاں جانے والی پروازیں بند کر دیں گے اور قطری فضائی کمپنی قطر ایئرویز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے نہایت خفیہ صحافتی ذریعے کے مطابق قطر اس بات پر کچھ پریشان ہے مگر اس کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ ابھی تک وہ نقشے پر مالدیپ نامی وہ ملک تلاش نہیں کر سکا جس کی حدود سے اس نے آئندہ اپنے ہوائی جہاز نہیں گزارنے۔پاکستان کے لئے بڑی پریشانی پیدا ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اچانک عرب شریف سے اعلان ہو کہ پاکستان نے بھی قطر سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر لئے ہیں۔ یاد رہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی اطلاع بھی حکومت پاکستان کو عربی اعلان کے ذریعے ہی ملی تھی. اب سوال یہ ہے کہ اچانک ایسی صورتحال کیوں بنی کہ معاملات سرحدوں کی بندش اور تعلقات کے انتقاع تک پہنچ گئے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ان کی چار وجوہات بیان کی ہیں
1:دوحہ نے جن اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی ان میں کچھ اپنے ممالک میں سیاسی فوائد اٹھا پائے ہیں۔
مثال کے طور پر 2013 میں جب مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو معزول کیا گیا تو قطر نے ان کی جماعت اخوان المسلمین کو ایک پیلٹ فارم فراہم کیا۔ یاد رہے کہ مصری حکومت نے اخوان المسلمین پر پابندی لگا رکھی ہے.
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کو دہشتگرد تنظیم مانتے ہیں۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے بیان کے مطابق قطر پر ‘اخوان المسلمین، داعش اور القاعدہ سمیت مختلف دہشتگرد اور فرقہ وارانہ گروہوں کی حمایت کرنا ہے جن کا مقصد خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔’ ادھر قطر نے اس اقدام کو بلاجواز اور بلاوجہ قرار دیا ہے۔ خود پر لگے الزامات کی تردید کرنے والے بیان میں قطری حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ‘دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔’
2۔ ایران کے لیے رویہ یہ نیا بحران اُس وقت شروع ہوا جب قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ایک مبینہ بیان پر رپورٹ شائع ہوئی جس میں امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف جارحانہ موقف پر تنقید کی گئی۔ قطر کے مطابق ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان کے پیچھے ہیکرز کا ہاتھ تھا۔ ایران کے حریف سعودی عردب کو ایک عرصے سے تہران کے موقف اور خطے میں اس کے عزائم پر تشویش رہی ہے۔ سعودی بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے شعیہ اکثریت والے علاقے میں دوحہ ‘قطیف میں ایران کی پشت پناہی حاصل رکھنے والے گروہوں کی شدت پسندی کی کارروائیوں میں مدد کر رہا ہے’۔
قطر پر یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنے کا بھی الزام لگایاگیا ہے۔
دوحہ جس نے سعودی اتحاد کے ہمراہ یمن میں کارروائیوں میں حصہ لیا ہے مسر ہے کہ وہ ‘دوسرے ممالک کی خود مختاری کی احترام کرتا ہے اور کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔’
3۔ لیبیا میں جاری تنازع لیبیا اُس وقت سے عدم استحکام کا شکار ہے جب سے سابق رہنما معمر قذافی کو 2011 میں بے دخل کرنے کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔ لیبیا کی ملٹری میں طاقتور حیثیت رکھنے والے خلیفہ ہفتار جنہیں مصر اور متحدہ عرب امارات کی پشت پناہی حاصل ہے قطر پر ‘دہشت گرد گروہوں’ کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہفتار ملک کے مشرقی شہر تبروک میں قائم حکومت کے حامی ہیں جبکہ قطر ترابلس میں قائم حکومت کی حمایت کرتی ہے۔
4۔ میڈیا کی جنگ سوموار کو اپنے بیان میں سعودی عرب نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ‘میڈیا اداروں کو استعمال کرکے سرکشی کے جذبات ابھار رہا ہے’ قطری میڈیا نے اخوان المسلمین کے ممبران کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ جبکہ قطر نے شکایت کی ہے کہ ‘اکسانے کی تحریک کے جو الزامات ہیں وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں’ قطری وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ‘میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے (قطر کے خلاف) وہ خطے میں عوام کے خیالات بدلنے میں ناکام ہوئی ہے خاص طور پر خلیج کے ممالک میں اور یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجوہات بیان کرتا ہے۔’ اس پر نہایت سنجیدہ انداز میں قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے جاری سفارتی بحران کے حوالے سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ قطر کے خلاف پیدا ہونے والی صورت حال پر ہمیں افسوس ہے جس کی دیدہ ونادیدہ وجوہات کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ہے اگر کوئی گلے شکوے تھے توان کا اظہار خلیج تعاون کونسل کے اجلاس یا بعدازاں مسلم سربراہی کانفرنس ریاض کے دوران ہونا چاہئے تھا لیکن دونوں مواقع پر سب کچھ نارمل تھا کسی قسم کے بحران کے کوئی آثار نہیں تھے۔قطری خبررساں ادارے کی ویب سائٹ ہیک ہونےکے بعد قطر کے خلاف بے بنیادافواہ سازی کا طوفان کھڑا کردیا گیا جس کی ڈوریاں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے ہلائی جارہی تھیں لیکن ہم نے اس پرمکمل صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور کوئی جوابی ردعمل نہیں دیا لیکن یہ سب کچھ ہمارے عمومی معیار شائستگی سے بہت فروتر تھا قطراورامیرقطر سمیت شاہی خاندان کی توہین کی گئی لیکن ہم نے صبر شکر کیا۔ایک سوال کے جواب میں وزیرخارجہ شیخ محمد نے بتایاکہ امیر قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی شب گذشتہ جاری بحران پر قوم کو اعتماد میں لینے کے لئے خطاب کرنے والے تھے لیکن امیر کویت نے جاری اس بحران کو حل کرنے کے لئے وقت مانگا اورقوم سے خطاب کومؤخر کرنے کی درخواست کی۔ قطر کے خلاف کئے جانے والے اقدامات یک طرفہ ،جارحانہ اورغیرمعمولی نوعیت کے ہیں لیکن ہم اس قسم کا کوئی جوابی اقدام نہیں کریں گے ہم تمام مسائل کو برابری ‘بقائے باہمی کے اصول کے تحت حل کرنا چاہتے ہیں۔
شیخ محمد نے بتایا کہ لاتعداد دوست ممالک کے وزرائے خارجہ نے مجھے مکمل حمایت کایقین دلایا ہے اورمعاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ایسے وقت جب عرب دنیا یمن، لیبیااورشام کی خانہ جنگی سے گذری ہے، ہمسائے میں عراق جنگ وجدل اور انتشار کا شکار ہے ایسے نازک مرحلے پرقطر کے خلاف نیامحاذ کھول کردینا عقل وفہم سے بالاتر ہے۔ اس سفارتی بحران نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ سوالات کھڑے کردئیے ہیں جو بنیادی طور پر ایک زبان، ثقافت اورباہمی خاندانی تعلقات رکھتے ہیں لیکن بعض ہمسایہ ممالک کے قطر پر اپنی رائے مسلط کرنے اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کومکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ہم کسی کو سر پرست کا کردار ادا کرنے نہیں دیں گے ۔ہمارے تعلقات برابری،خودمختاری اورباہمی احترام کی بنیاد پر ہی استوار رہ سکتے ہیں لیکن موجودہ بحران اورر ویوں نے خلیج تعاون کونسل کے حوالے سے سنگین سوالات پیدا کردیئے ہیں۔امریکہ سے تعلقات کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ سے قطر کے تعلقات ادارہ جاتی سطح پر مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہیں ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑرہے ہیں اس بحران کی وجہ سے ان تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تناو اور ٹینشن کے ماحول میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب حوثی گروپ کی انقلابی کونسل کے سربراہ محمد علی الحوثی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ مشکل کی گھڑی میں قطر کے ساتھ ہیں .انہوں نے کہا وہ قطر کے ساتھ بے وفائی نہیں کریں گے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قطر اور حوثیوں کے درمیان بھی گہرے دوستانہ روابط رہے ہیں حالانکہ قطر حوثیوں کے خلاف قائم اس عرب اتحاد کا بھی حصہ ہے جویمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لئے سیاسی اور عسکری سطح پرکام کررہاہے ..اب پرامن دنیا کی نظریں بڑے طاقتور ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کی طرف گھڑی ہوئی ہیں ،بدقسمتی سے امور خارجہ کے متعلق وزارات خارجہ روز اول سے بے اختیار اور کمزور پوزیشن پر ہے۔