تحریر: حبیب اللہ سلفی سعودی عرب میں مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اور اہم فوجی مشقیں ”رعدالشمال” شمال کی گرج کے نام سے شروع ہو گئی ہیں جس میں پاکستان سمیت 20 ممالک کے فوجی دستے شریک ہیں۔ حضر الباطن میں شمال مشرقی سعودی عرب کے علاقے شاہ خالد سٹی میں ہونیو الی ان مشقوں میں فضائی، سمندری اور زمینی افواج حصہ لے رہی ہیں۔ حالیہ تاریخی جنگی مشقوں کو اس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے کہ ان میں صرف عرب اور دوسرے مسلم ممالک شامل ہیں ‘امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کو اس میں شریک نہیں کیا گیا۔ یہ مشقیں اس بات کا واضح پیغام ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک تمامتر چیلنجوں سے نمٹنے اور خطہ کا امن و استحکام برقرار رکھنے کیلئے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
سعودی عرب کی زیر قیادت چند ماہ قبل 34 مسلم ممالک کا اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس امرکا فیصلہ کیا گیا تھا کہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے اور دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ سعودی دارالحکومت الریاض میں ہونیو الے مسلم ممالک کے اجلاس میں متفقہ طور پر قرار دیا گیا تھا کہ انسانیت کیخلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جو نہ صرف نسل انسانی کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔
Terrorism in Saudi Arabia
اس لئے سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی جائے گی۔ اس اتحاد کے تشکیل پانے کے بعد سے مسلم ممالک میں تکفیر اور خارجیت کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے پہلے سے زیادہ تحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ویسے بھی اب سبھی یہ بات محسوس کر رہے ہیں کہ دہشت گردی صرف ایک ملک کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک گلوبل مسئلہ بن چکا ہے جس پر قابو پانے کیلئے سب کو مل کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں بیرونی قوتوں کی جانب سے اس فتنہ کوخاص طور پر پروان چڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس مقصد کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک اس حوالہ سے مشترکہ کاوشیں کرتے نظر آتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب کبھی میدانوں میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں دشمنان اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں کے اندر تکفیر اور خارجیت کے فتنوں کو ہوا دی ہے تاکہ انہیں باہم دست و گریباں کر کے مذموم ایجنڈے پورے کئے جاسکیں۔ آج بھی جب مسلمان دنیا کے نقشے پر مضبوط قوت بن کر ابھررہے ہیں تو عرب ملکوں میں داعش کو کھڑ ا کیاگیا’ پاکستان میں تکفیری گروہوں کو پروان چڑھایا گیا اور امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کے خلاف حوثی باغیوں کی پشت پناہی کی گئی۔ یہ سب کچھ طے شدہ منصوبہ بندی اور کفار کی مسلمانوں پر مسلط کردہ جنگوں کا حصہ ہے۔
مسلم ملکوں میں حکمرانوں اور افواج کے خلاف حملوں کو جائز قراردینے والے جتنے گروہ کھڑے کئے گئے وہ فلسطین، کشمیرا ور دنیا کے دیگر خطے جہاں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہاں جا کر جہاد کرنا درست نہیں سمجھتے لیکن اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر کفرے کے فتوے لگا کر ان کا خون بہانا افضل جہاد سمجھتے ہیں۔ یہ گمراہی کی بدترین شکل ہے اور ایسے لوگوں کے متعلق شریعت میں واضح احادیث موجود ہیں جن میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کا شکار گمراہ لوگوں کی واضح نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف خودکش حملے کرنے والوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ فلسطین میں یہودی کس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں؟۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کر نے کیلئے کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں ؟یا مقبوضہ کشمیر میں ہر روز نت نئے مظالم ڈھاتے ہوئے کس طرح مائوں، بہنوں و بیٹیوں کی عزتیں پامال اور ان کی املاک برباد کی جارہی ہیں۔ان کی ساری توجہ مسلم ملکوں و خطوں میں مسجدوں، بازاروں اور مارکیٹوں میں بم دھماکوں اور افواج کو نشانہ بنانے کیلئے حملوں پر مرکوز ہے۔ اس کیلئے وہ دشمنان اسلام سے مدد لینے کوبھی اپنے لئے حلا ل سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور وہ دشمن کے کیمپوں میں ٹریننگ لینا بھی وہ اپنے لئے باعث عار نہیں سمجھتے۔ ایسی صورتحال میںجہاں مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل کو دشمنان اسلام کی سازشوں کے آلہ کار گروہوں اور ان کے گمراہ کن نظریات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں عصر حاضر کے سب سے بڑے فتنہ سے مکمل آگاہی ہو اور وہ دشمن کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچ سکیں وہیںپاکستان ، سعودی عرب اور دیگر مسلم ملکوں کے مابین دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک دوسرے سے تعان بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔
Pak-Saudi Joint Military Exercises
پاک سعودی افواج کی ماضی میں بھی مشترکہ مشقیں ہوتی رہی ہیں جن کے دونوں ملکوں کو یقینی طور پر بہت زیادہ فوائد ہوئے ہیں تاہم اس وقت سعودی عرب میں جو مشقیں جاری ہیں جن میں پاکستان، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سینیگال، سوڈان، کویت، مالدیپ، مراکش، چاڈ، تیونس، جیبوتی، کوموروس،سلطنت عمان، قطر، ملائیشیا، مصر، موریطانیہ اور ماریشس وغیرہ شریک ہیں’ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ملکوں کی تعدادر مختلف اقسام کے فوجی ساز وسامان کے علاوہ جدید ترین ہتھیاروں اور اسلحے کے لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور مفرد جنگی مشقیں ہیں۔
بعض ممالک کی جانب سے سعودی عرب، قطر اور ترکی وغیرہ کیخلاف یہ پروپیگنڈا بھی کیاجاتا رہا ہے کہ داعش کو مبینہ طور پران ممالک کی سپورٹ شامل ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ اس وقت دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد عملی طور پر جو کوششیں کر رہا ہے اور حال ہی میں جو جنگی مشقیں کی جارہی ہیں وہ اس حوالہ سے ان کے بے بنیاد پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب ہے۔سعودی عر ب پر دوسرے ملکوں میں مداخلت کا الزام بھی لگایا جاتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ جو ملک شدومد سے یہ باتیں کرتے ہیں ان کے اپنے جنرل اور فوجی افسروں کے شام میں مارے جانے کی خبریں میڈیا پر آرہی ہیں۔
بہرحال سعودی عرب میں جاری مشقوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ اسلامی ملک دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکیں اور میں سمجھتاہوں کہ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے۔ پاکستان ان مشقوں میں بھرپور انداز میں شریک ہے۔ دونوں ملکوں کے شروع سے گہرے اور برادارانہ تعلقات ہیں جو دن بدن مزید مستحکم ہو رہے ہیں۔ جب سے دہشت گردی کے فتنہ نے سر اٹھانا شروع کیا ہے دونوں ملکوں کے تربیت دینے والے افسر ایک دوسرے کے ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں اور ان کی باہمی جنگی مشقیں بھی جاری رہتی ہیں۔ پاکستان نے اللہ کے فضل و کرم سے دہشت گردوں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
سعودی عر ب اور دیگر مسلم ممالک اگر پاکستانی سپیشل فورسز کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہ پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے اور پاکستان ان شاء اللہ ان کے ساتھ ہر قسم کاتعاون جاری رکھے گا۔حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دشمنان اسلام متحد ہو کرفلسطین، کشمیراور شام میںبے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والوں کی مکمل پشت پناہی کر رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ان حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلمان ملکوں کے ذمہ داران بھی بیرونی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اورتکفیری گروہوںکے خلاف مشترکہ کارروائیاں کی جائیں تاکہ امت مسلمہ کو اس فتنہ سے بچایا جا سکے۔