سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش کو دھمکی دی ہے کہ سعودی عرب میں کئی دہائیوں سے مقیم 54 ہزار روہنگیا مہاجرین کو پاسپورٹ جاری نہ کرنے کی صورت میں ڈھاکا کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
چالیس برس قبل سعودی عرب نے میانمار میں مظالم کا نشانہ بننے والے ہزاروں روہنگیا مہاجرین کو ملک میں پناہ دینے کی اجازت دی تھی۔ اب ریاض حکومت چاہتی ہے کہ بنگلہ دیش تقریباﹰ 54000 ایسے روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش کی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
سعودی عرب میں ایک طویل عرصے سے رہنے کے باوجود یہ روہنگیا مہاجرین ’بے وطن‘ ہیں، یعنی وہ کسی بھی ملک کا پاسپورٹ نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ ان مہاجرین کے بچے جو سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے اور عربی زبان بولتے ہیں، انہیں بھی سعودی شہریت نہیں دی جاتی۔
ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم ان روہنگیا مہاجرین کی اکثریت نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر کبھی قدم تک نہیں رکھا۔ گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ریاض حکومت نے ڈھاکا سے کہا ہے کہ ان روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیشی پاسپورٹ دیے جائیں، کیوں کہ سعودی عرب میں شہریت کے بغیر افراد کو رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
سعودی عرب میں تقریباﹰ بیس لاکھ سے زائد بنگلہ دیشی باشندے ملازمت کرتے ہیں۔ یہ شہری سالانہ 3.5 بلین امریکی ڈالر سے زائد تک کی رقم بنگلہ دیش بھیجتے ہیں۔ اس زرمبادلہ پر جنوبی ایشیائی ملک کی معیشت بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
سعودی عرب نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے روہنگیا مہاجرین کو پاسپورٹ جاری نہیں کیے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اپنے ملک میں ملازمت کرنے والے بنگلہ دیشی مزدوروں کی تعداد محدود کرسکتا ہے۔
بنگلہ دیشی وزیر خارجہ مومن نے سعودی حکام کی طرف سے یہ دھمکیاں موصول ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا۔ روہنگیا افراد سے متعلق امور کے بنگلہ دیشی ماہر شفیع الرحمان کے مطابق قومی معیشت میں زرمبادلہ کی اہمیت دیکھتے ہوئے بنگلہ دیش کے لیے اس دھمکی کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔
روہنگیا کس ملک کے شہری ہیں؟ مسلمان روہنگیا میانمار کی ریاست راکھین سے تعلق کھنے والے ایک نسلی اقلیت ہیں، جنہیں میانمار نے شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کئی دہائیوں سے تشدد کا شکار روہنگیا دوسرے ممالک میں پناہ کی تلاش میں پہنچتے ہیں۔
اگست 2017ء میں میانمار کی فوج کی کارروائیوں سے جان بچاکر لاکھوں روہنگیا افراد ہجرت کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔
بنگلہ دیشی وزیر خارجہ کے مطابق سعودی عرب میں مقیم روہنگیا افراد میں سے پاسپورٹ صرف ایسے باشندوں کو دیے جا سکتے ہیں، جو یہ ثابت کرسکیں کہ ماضی میں ان کے پاس بنگلہ دیشی شہریت موجود تھی۔ مومن کے بقول، ’’سعودی عرب یہ جانتا ہے کہ روہنگیا مسلمان میانمار کے شہری ہیں اور ان کو اس معاملے میں پہلے میانمار سے بات کرنا چاہیے۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے سعودی عرب میں مقیم ایک روہنگیا مہاجر سان لون نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’برما حکومت سن 1970 کی دہائی کے اوائل سے ہی میانمار میں روہنگیا برادری پر مظالم ڈھا رہی ہے ، لہٰذا انہیں برما (میانمار) کا پاسپورٹ رکھنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔‘‘
لون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میانمار سے سعودی عرب فرار ہونے والے زیادہ تر روہنگیا افراد کو بنگلہ دیش سمیت دیگر ملکوں کے پاسپورٹ استعمال کرنا پڑے تھے۔ ان کے بقول، ’’اب یہ بات اہمیت کی حامل نہیں کہ اس وقت روہنگیا افراد کے پاس کون سا پاسپورٹ تھا۔‘‘
سعودی عرب میں روہنگیا مہاجرین کو صرف رہائشی اجازت نامے مہیا کیے جاتے ہیں لیکن انہیں شہریت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لون کے مطابق ان تک بہت کم روہنگیا کو سعودی عرب میں شہریت مل سکی ہے۔
لون سمجھتے ہیں کہ روہنگیا برادری کے لیے میانمار کو محفوظ بنانا ایک واحد حل ہے، جس پر سعودی عرب سمیت عالمی برادری کو توجہ دینی چاہیے۔
ماہرین کے خیال میں سعودی عرب روہنگیا مہاجرین کو شہریت دینے سے اس لیے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس پر زیادہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ متاثرہ افراد کی مدد کرے، اور سعودی حکومت اس مدد کو ایک بوجھ کے طور پر دیکھتی ہے۔