سعودی عرب (جیوڈیسک) خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے لیے کام کرنے والی حقوق انسانی کی ایک تنظیم کے مطابق سعودی حکام نے ان کی ویب سائٹ کو بلاک کر دیا ہے۔
گلف سینٹر فار ہیومن رائٹس نے سعودی عرب میں ایک خاتون کے بارے میں پہلی بار بتایا تھا جس نے ملک میں خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی کی خلاف ورزی کی تھی۔ گلف سینٹر کے مطابق سعودی عرب نے منگل کو اس ویب سائٹ کو بلاک کیا ہے جبکہ سعودی عرب سے باہر اس ویب سائٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اس تنظم نے منگل کو سعودی حکام کی جانب سے دو خواتین کو گرفتار کرنے کے واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔ تنظیم کے مطابق سعودی حکام نے لوجین ہتھلول کو متحدہ عرب امارات سے گاڑی چلاتے ہوئے سعودی عرب میں داخل ہونے پر روکا تھا اور اس واقعے کے بعد جب یو اے ای میں مقیم سعودی خاتون صحافی میسا المودی اس کی مدد کو پہنچی تو اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔
تنظیم کے مطابق دونوں خواتین کی گرفتاری سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو ہراساں کرنے کی ایک منظم مہم کا حصہ ہے۔
سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ پابندی قانون کا حصہ نہیں تاہم معاشرتی اور تہذیبی طور پر سعودی عرب میں اس عمل کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا نہیں کیا جاتا اور اس بنا پر انھیں ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کی تحریک تقریباً 20 سال سے جاری ہے لیکن گذشتہ سال اس ضمن میں ہونے والے احتجاج نے اس تحریک کو نئی زندگی بخشی ہے۔
سعودی عرب میں گذشتہ سال خواتین کی ڈرائیونگ کے حق میں کام کرنے والی تنظیم ’ویمن ٹو ڈرائیو‘ نے مہم چلائی تھی جس میں خواتین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر گاڑی چلائیں۔اطلاعات کے مطابق 60 سے زائد خواتین نے گاڑیاں چلا کر احتجاجی مہم میں حصہ لیا تھا اور حکام نےگاڑی چلانے والی 16 خواتین کو جرمانے کیے تھے۔
گذشتہ سال ہی ایک قدامت پسند سعودی عالم شیخ صالح نے بیان دیا تھا کہ ڈرائیونگ کرنے والی خواتین کی بیضہ دانیوں (ovaries) کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ شیخ صالح کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم ’ویمن ٹو ڈرائیو‘ کے کارکن اس مہم کو تیز تر کر رہے تھے۔