تحریر : انجینئر افتخار چودھری یوں تو سعودی عرب کا نظام عدل مثالی رہا ہے یہ وہ ملک ہے جہاں شہزادوں کے سر بھی قتل کی وارداتوں کے بعد قلم ہوئے ماضی قریب میں تو ایک شہزادے نے تجوریاں کھول دیں تا کہ مقتول کے ورثاء اسے معاف کر دیں مگراسے معافی نہیں ملی اور وہ اس جہاں سے اس جہاں پہنچ گیا۔گزشتہ کئی دنوں سے سعودی عربیہ بڑی خبروں کی زد میں ہے جب سے کچھ شہزادے اور وزیر گرفتار ہوئے ہیں افواہ ساز فیکٹریاں اس ملک کے خلاف ہمیشہ کی طرح سر گرم ہو چکی ہیں کچھ مخصوص اینکر تو ایک دو ٹویٹس کا بہانہ بنا کر سعودی عرب کے خلاف میدان میں نکل چکے ہیں ایک خاص ملک جس کو سعودی عرب سے بیر ہے اس کی لابی تو چھلانگیں لگا رہی ہے اور اس پورے آپریشن کے مرکزی کردار شہزادہ ولید بن طلال اور ڈونلڈ ٹرمپ کی قبل از انتحابات لڑائی کو موضوع بنا کر اسے کچھ اور ہی رنگ دے رہے ہیں۔اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ امریکی انتحابات صرف امریکہ کے نہیں پوری دنیا کی صدارت کے لئے ہوتے ہیں تو ان انتحابات میں لوگ اپنی اپنی پسند کے امیدوار کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں اسی طرح شہزادہ ولید بن طلال نے ہیلری کلنٹن کی حمائت کی۔
لوگوں کی دلچسپایں اس لیول پر بھی پہنچیں کے گجرانوالہ کے زندپ دلان نے ایک بینر بھی لگا دیا کہ ہم جناب ڈونلڈ ٹرمپ کو انتحابات میں کامیابی پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔شروع شروع میں میں بھی ان گرفتاریوں پر سراپہ ء احتجاج بن گیا تھا اور ان ساری کاروائیوں کو اقتتدار کی جنگ سمجھا تھا لیکن جیسے جیسے حالات سے آشنائی ہوئی تو پتہ چلا کہ سعودیوں کی حالت زار کا سبب بھی چند لوگ تھے محترم ہستی کا قول ہے کہ دولت کے انبار کے پیچھے بدعنوانی ہوتی ہے۔جس طرح پاکستان کو لوٹنے میں سابق وزیر اعظم اور صدر کا ہاتھ ہے اسی طرح سعودی غربت کے پیچھے چند افراد کا ہاتھ ہے جنہوں نے تیل سے مالا مال اس ملک کے غریب عوام کو مزید غریب کیا۔میں نے سعودی عرب میں ربع صدی گزاری ہے خفجی سے نجران تک مختلف اوقات میں کام کیا شائد میں ان چند پاکستانیوں میں ہوں جنہوں نے ربعالخالی جیسے صحراء میں کام کیا ہے میری بقسمتی کا سبب میرے حکمران تھے اور وہاں گوروں کے ساتھ گائیڈ کی حیثیت سے کام کرنے والے سعودیوں کی غربت کے سبب یہ لوگ تھے جن پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔خادم حرمین سلمان بن عبدالعزیز نے کرپشن کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا ہے اور اس کا انچارج اپنے جواں سال بیٹے محمد بن سلمان کو بنایا ہے جو وزیر دفاع بھی ہیں۔
اس کمیٹی نے بڑی تحقیق کے بعد کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے ۔آج کے اردو جریدے میں خبر تھی کہ سابق وزیر محنت عادل فقیہ کو بھی دھر لیا گیا ہے حضور اس سے پہلے شہر جدہ کے میئر بھی رہ چکے ہیں اقتصادی منصوبہ بندی کے وزیر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔یہ انے آپ کو ہمارے احسن اقبال کی طرح عقل کل سمجھتے تھے اور ویزن ٢٠٢٥ کے بھی داعی تھے۔جدہ میں مدت دراز گزاری ہے انہیں ٢٠١٠ میں جدہ میں آنے والے سیلاب میں بڑی کرپشن کی وجہ سے دھر لیا گیا تھا یہ خبری سلوں پہلے سن چکا تھا کہ جدہ شہر کی تخطیط میں بڑی کرپشن کی گئی میرے وہ پرانے دوست ضرور جانتے ہوں گی جامعہ ملک عبدالعزیز سے مکہ ایکسپریس روڈ کے محلہ غویزہ کے پہاڑوں سے ایک سیلابی نہر ہوا کرتی تھی جو ماء تحلیہ کے پاس ہوتی ہوئی سوق جدہ دولی کو مس کرتی ہوئی سعودیہ سٹی سے ہوتی ہوئی بحر احمر میں گرتی تھی۔جدہ میں آنے والے سیلاب کے پانی کو وادی فاطمہ کے پہاڑوں سے سرخ سمندر تک لے جانے والی اس نہر کو بیچ کر وہاں ہائی رائز بلڈنگز فلیٹ بنا دئے گئے۔جب سیلاب آیا تو گاڑیاں ان فلیٹوں کی دوسری منزل پر پائی گئیں۔اس طرح میئر جدہ نے جب وزارت سنبھالی تو خارجیوں کے لئے برق ثابت ہوئے ہر چھوٹے انویسٹر اور بڑی کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ نالائق سعودیوں کو بھرتی کرے۔اس سے انویسٹرز اور کمپنی مالکان کا کباڑہ نکل گیا جن کمپنیوں نے سعودی نہیں رکھے ان کے کمپیوٹر بند کر دئے گئے جوازات میں کمپیوٹر بند ہونے سے مراد ہے کہ آپ کے پاسپورٹ پر چھٹی تک نہیں لگ سکتی اقامہ تجدید نہ ہونے کی صورت میں پورا ملک آپ کے لئے جیل بن جاتا تھا۔
اس سے کمپنیوں کی استعداد کار میں بہت بڑا فرق پڑا سعودی بن لادن فیل ہو کر رہ گئی سعد الحریری جو نواز شریف کے ذاتی دوستوں میں ہیں یاد رہے یہ وہ سعد الحریری ہیں جنہوں نے نواز شریف کو پاکستان سے لے جانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ان کی کمپنی جس نے شاہی محل بنائے تھے ان کی کمپنی کا نام سعودی اوجر ہے یہ وہی کمپنی ہے جس کے مزدوروں کو ایک ایک سال سے تنخواہ نہیں ملی اور نیٹ پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔سب سے اہم خبر یہ ہے کہ سعد الحریری کو ریاض بلایا گیا اور ان سے وزارت عظمی کا استعفی یہاں سے لبنان بھجوایا گیا۔اس خبر کے پیچھے بہت بڑی خبر ہے اور میری معلومات کے مطابق سعودی اوجر کی بہت بڑی کرپشن اس کی بنیادی وجہ ہے شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے اس امیج کی وجہ سے سخت نالاں تھے۔میاں محمد نواز شریف نے سعودی عرب کی مدد لینے کی جو کوشش کی اور اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے اس کی بنیادی وجہ موجودہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف جنگ ہے نواز شریف شکر کریں کہ انہیں سعودی عرب نے باز پرس نہیں کی۔مجھے پورا یقین ہے کہ حسین نواز شریف نے محمدیہ پلازہ میں جو دفاتر کھڑے کئے ہیں اور پراپرٹی کے جو کاروبار جائز و ناجائز کئے ہیں وہ اس لڑائی میں قابو میںآ سکتے ہیں ۔جدہ اسکولز کے سکینڈلز میں ان پر ہاتھ پڑ سکتا ہے۔کرپشن کے خلاف اس لڑائی میں عام آدمی بہت خوش ہے۔میں نے حفر الباطن بریدہ قسیم طائف الباحہ بلجرشی نماس ابہا خمیس مشیط نجران جیزان ینبع تبوک مدینہ منورہ ریاض جدہ کے شہروں میں مختلف اوقات میں ریجینل مینجر کے بطور کام کیا ہے مجھے عربی پنجابی کی طرح آتی ہے یقین کیجئے سعودی عرب کے عام آدمی کی حالت نہیں ٹھیک ہوئی سڑکیں پل وہاں بھی بہت بنے مارکیٹیں دکانیں بھی لیکن اصلی بدو کی زندگی کی مشکلات کم نہ ہو سکیں یہ لوگ زیادہ تر پولیس اور فوج میں ملازمتیں کرتے رہے۔
سعودی ایئر لائین میں نوکریاں کیں وہاں بھی پی آئی اے کی طرح آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا اسی کی دہائی میں اگر آپ ہائوس رینٹ نوکری دلوانے والے کو دے دیں تو نوکری پکی۔اس ملکی ایئر لائین کے مقابلے میں نجی ایئر لائین بہت کامیاب ہے سمجھ لیں بلیو ایئر لائین کی جگہ فلائی ناس ایک کامیاب ایئر لائن ۔سعودی عرب کی کرپشن کے خلاف اس جہاد کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں سب سے سے پہلے دنیا کے سب سے بڑے مالدار پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔گرچہ پاکستان نے ہمت کی ہے کہ اس کی عدالتوں نے ایک بڑے کرپٹ کو ڈی سیٹ کیا ہے مگر یہاں اس کے بعد کیا ہوا وہی کرپٹ کیوں نکالا کی گردانیں کرتا کبھی دینہ کبھی گجرانوالہ اور کبھی لندن میں چیختا پھر رہا ہے جبکہ سعودی عرب نے انہیں چسکنے نہیں دیا اسے کہتے ہیں احتساب۔یار لوگوں کو اعتراض ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب میں مال پانی بنانے کی تو دنیا کے امیر اپنی حفاظت کے لئے پیسہ خرچ بھی کرتے ہیں۔آج سعودی عرب اپنے ارد گرد ایران اور اس کی لابی کا گھیرا محسوس کرتا ہے اسے بحرین میں بھی سامنا کرنا پڑا قطیف میں ہونے والی بغاوت کا مزہ چکھا اور اب حوثی باغیوں کی جانب سے الریض کی طرف داغا جانے والا میزائل جو راستے میں دبوچ لیا گیا۔یہ سب کچھ ڈرامہ نہیں سمجھا جا سکتا۔سعودی عرب کے ساتھ ان ملکوں نے بھی مذاق کیا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم سرد و گرم میں ساتھ رہیں گے چونتیس ملکوں کے اتحاد کے نام پر سعودی عرب کا مذاق اڑایا گیا۔مجھے یہ بتائیے کہ پاکستان رضائی میں بیٹھ کر پاپ کارن کھاتے ہئے سعودی عرب کو ٹوٹتا دیکھنا چاہتا ہے۔ہاں اگر ٹھیک ہے تو اکہتر کی جنگ میں شاہ فیصل کے دئے ہوئے بلینک چیکوں کو بھی واپس کر دینا تھا مجھے خود میاں شہباز شریف نے بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد جب سب نے منہ موڑ لیا تو یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے ہمیں مفت میں تیل سپالئی کیا اسی بات کی تصدیق جنرل مجید ملک نے میرے سامنے کی۔در اصل ہم یاروں کے یار نہیں ویسے ہی گانے بنا لئے ہیں کبھی اسلم بیگ ہمارے پینڈے کھوٹے کر گئے اور کبھی نواز شریف۔یہ وقت ہے کہ ہم سینہ ٹھوک کے سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوں۔میں نے کب کہا ہے کہ ایران کو دشمن بنائیں دوستی صرف ایک سے نہیں ایک سے زیادہ لوگوں ملکوں سے ہو سکتی ہے بیک وقت ایران اور سعودی عرب سے کیوں نہیں۔