ریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے خلاف ’دھمکیوں‘ کا بھرپور جواب دے گا۔ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ریاض پر سعودی صحافی خاشقجی کا قتل ثابت ہوا تو اسے ’سنگین سزا‘ دی جائے گی۔
ترکی میں لاپتہ ہونے والے سعودی شاہی خاندان کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ اگر خاشقجی کا قتل اور اس میں ریاض حکومت کا ملوث ہونا ثابت ہو گیا تو سعودی عرب کو ’سخت سزا‘ دی جائے گی۔
امریکی صدر سعودی عرب کو اپنے قریبی اتحادیوں میں شمار کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے بھی سعودی عرب ہی کا انتخاب کیا تھا۔ تاہم سعودی شاہی خاندان کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کی دو اکتوبر کے روز استنبول میں قائم سعودی کونسل خانے میں گمشدگی اور مبینہ ہلاکت کی خبروں کے باعث ریاض کے ساتھ ساتھ واشنگٹن پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پروگرام ’60 منٹس‘ میں صدر ٹرمپ کا انٹرویو آج چودہ اکتوبر بروز اتوار نشر کیا گیا۔ اس انٹرویو میں صدر ٹرمپ کا خاشقجی کے معاملے کے حوالے سے کہا، ’’اگر اس معاملے کو دیکھیں، جو کہ ہم دیکھیں گے بھی، تو ہمیں کچھ انتہائی برا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ کیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کا پروانہ جاری کیا تھا تو ٹرمپ نے کہا، ’’ابھی یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہم حقائق تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
تاہم صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی صدر کے مطابق اسلحے کی فروخت روکنا ’خود کو سزا دینے‘ کے مترادف ہو گا کیوں کہ اس سے امریکی شہریوں کی ملازمتوں کو نقصان پہنچے گا۔
صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد آج سعودی اسٹاک ایکسچینج تداول میں سات فیصد کمی دیکھی گئی۔ ریاض حکومت نے صدر ٹرمپ کا نام لیے بغیر جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ’’سلطنت ہر قسم کی دھمکیوں اور معاشی پابندیوں، سیاسی دباؤ یا غلط الزامات کی تکرار کے ذریعے سلطنت کو سبوتاژ کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتی ہے۔‘‘
سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے کسی بھی قدم کے ردِ عمل میں ریاض حکومت فوری اور بھرپور جواب دے گی۔