سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب میں وزارتِ صحت نے موبائل ایپلی کیشن صحتی کے ذریعے کووِڈ-19 کی ویکسین لگوانے والے شہریوں اور مکینوں کے لیے رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے۔
سعودی شہری اور مکین ذیل کے لنک کے ذریعے اپنے ناموں کا اندراج کرا سکتے ہیں:(http://onelink.to/yjc3nj) انھیں کووِڈ-19 کی ویکسین حکومت کی جانب سے مفت لگائی جائے گی۔
سعودی عرب کی فوڈ اور خوراک اتھارٹی نے گذشتہ جمعرات کوامریکا کی دواساز فرم فائزر کی جرمن کمپنی بائیواین ٹیک کے اشتراک سے تیارکردہ کووِڈ-19 کی ویکسین کو مملکت میں استعمال کرنے کی منظوری دی تھی۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے)کے مطابق’’اتھارٹی نے فائزر کے 24 نومبرکو فراہم کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ویکسین کے اندراج کی منظوری کا فیصلہ کیا تھا۔اب اس کمپنی کی ویکسین مملکت میں استعمال کے لیے درآمد کی جائے گی۔‘‘
فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی نے ویکسین کے مؤثر اور محفوظ ہونے کا تفصیلی جائزہ لیا تھا اور کمپنی کے فراہم کردہ ڈیٹا کے جائزے کے لیے کئی اجلاس منعقد کیے تھے۔ان میں مقامی اور بین الاقوامی ماہرین اور سائنس دان بھی شریک ہوئے تھے۔دواساز کمپنی کے نمایندے سے ملاقاتوں میں اتھارٹی نے مختلف سوالات پوچھے تھے۔
سعودی عرب میں فائزر کی مہیا کردہ ویکسین تین مراحل میں لگائی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں 65 سال سے زاید عمر کے شہریوں اور مکینوں کو ترجیح دی جائے گی۔اس کے علاوہ کرونا وائرس کے خلاف محاذِ اوّل پر لڑنے والے طبّی عملہ اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور پہلے سے مختلف دیرینہ امراض کا شکار افراد کو ترجیحاً سب سے پہلے ویکسین لگائی جائے گی۔
وزارت صحت کے مطابق موٹاپے کا شکار افراد ،ذیابطیس یا دمے میں سے کسی ایک عارضے میں مبتلا افراد،گردے اور دل کے دائمی عارضے کا شکار افراد کو بھی پہلے مرحلے میں کرونا وائرس کی ویکسین لگائی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد ، پہلے مرحلے میں رہ جانے والے طبی عملہ اور مختلف عوارض کا شکار دائمی مریضوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔ تیسرے مرحلے میں باقی بچ جانے والے افراد یا ویکسین لگوانے کے خواہاں کسی بھی فرد کو انجیکشن لگایا جائے گا۔
واضح رہے کہ سعودی وزارت صحت نے گذشتہ ماہ مملکت میں مقیم ہر فرد کو کرونا وائرس کی ویکسین مفت مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔وزارتِ صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے بتایا تھا کہ ’’مملکت میں 2021ء کے آخر تک کرونا وائرس کی ویکسینیں وافرتعداد میں دستیاب ہوں گی اور یہ ملک کی 70 فی صد آبادی کے لیے کافی ہوں گی۔‘‘