جنیوا (جیوڈیسک) امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو جنیوا میں ہونے والے آرمز ٹریڈ ٹریٹی کے رکن ممالک کے اجلاس میں سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاملے پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ سعودی عرب یمن میں شیعہ باغیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔
امدادی ادارے آکسفیم نے برطانوی وزرا پر ’انکار و انتشار‘ کی حکمتِ عملی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا، تاہم برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے برطانیہ کی درآمدات کے طریقۂ کار کے مطابق ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس تینوں نے آرمز ٹریڈ ٹریٹی معاہدے کی توثیق کر رکھی ہے جس کا مقصد اسلحے کی فروخت پر نظر رکھنا ہے، خاص طور پر شورش زدہ علاقوں اور ایسے ملکوں کو جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت سے یمن میں جاری تنازعے کو ہوا مل رہی ہے۔
گذشتہ برس برطانوی حکومت نے سعودی عرب کو چار ارب ڈالر، جب کہ امریکہ نے چھ ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کیا۔ فرانس نے اسی دوران 18 ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو بیچا۔
منگل کے روز جنیوا میں آکسفیم سعودی عرب کی جانب سے یمن میں کی جانے والی بمباری کا ذکر کر کے برطانیہ پر الزام عائد کرے گی کہ وہ آرمز ٹریڈ ٹریٹی کے پرجوش حامی سے تبدیل ہو کر اس کی خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یمن میں ہونے والی ہزاروں ہلاکتیں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ایسے ممالک کو اسلحے کی فروخت محدود کر دینی چاہیے جہاں شورش جاری ہے۔
دریں اثنا حقوقِ انسانی کی تنظیمیں یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ چین، یوکرین اور جنوبی افریقہ سے ملنے والے اسلحے نے جنوبی سوڈان کے تنازعے کو مزید ہوا دی ہے۔
دنیا بھر میں اسلحے کی کاروبار کی کل مالیت تقریباً 17 کھرب ڈالر سالانہ ہے۔ اسلحے کے خلاف مہم چلانے والے اداروں کا کہنا ہے کہ آرمز ٹریڈ ٹریٹی کے دستخط کنندگان کو جنگ زدہ علاقوں کو اسلحے کی فروخت محدود کر دینی چاہیے۔