ریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب نے کینیڈا کی وزیر خارجہ کی اس ٹوئٹ کو ملکی داخلی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت قرار دیا تھا، جس میں انہوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور یہیں سے ان دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تنازعے کی ابتدا بھی ہوئی۔
متعدد عرب ریاستوں نے اس سعودی موقف کی تائید کی ہے، جن میں بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔
مشرق وسطی امور کے ایک جرمن ماہر گیڈو شٹائن برگ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کی وزارت خارجہ کی ٹوئٹ پر سعودی عرب کے اس جارحانہ رد عمل کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ’’ایک تو سعودی قیادت خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے اور وہ تھوڑی جنونی بھی دکھائی دے رہی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بھی لگ رہا ہے کہ سعودی اب مغربی ممالک کی تنقید سے بیزار ہو چکے ہیں۔
گیڈو شٹائن برگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کینیڈا کو مثال بنا کر دیگر مغربی ممالک کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کی داخلی پالیسیوں پر تنقید نا قابل قبول ہے، ’’عین ممکن ہے کہ ان اقدامات کا مقصد یہ اشارہ دینا بھی ہو کہ اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘ شٹائن برگ کے بقول سعودی عرب کو یہ علم ہے کہ وہ ایک اہم ملک ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹی مائنز سے وابستہ گنٹر مائر کے مطابق سعودی ولی عہد بن سلمان عوام کے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کی خارجہ پالیسیاں بہت موثر ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شام میں سعودی عرب جن باغیوں کو تعاون فراہم کر رہا تھا وہ جنگ ہار چکے ہیں اور اس کے علاوہ یمن میں سعودی فوجیں ایک مہنگی ترین جنگ میں مصروف ہیں، ’’محمد بن سلمان اپنی خارجہ پالیسی میں کمزور ہو چکے ہیں اور اس صورت میں کینیڈا کی سخت تنقید برداشت کرنا انہیں مزید کمزور کر دے گا۔‘‘