سعودی عربیات

Saudi Arabia

Saudi Arabia

تحریر : افتخار چوہدری
چالیس سال پہلے ایک پاکستانی پر کیا گزری سوچا کہ اس کا م کو یہیں چھوڑ دوں مگر آج غوری ٹائون میں برادر نسیم محمود کو ملنے گیاکہنے لگے سیاسی کالم کوگولی مارو اپنی یادداشتیں لکھنا نہ چھوڑو کسی کو تو پڑھ کر یہ تو احساس ہو گا کہ پچاس سال پہلے گھر سے روزی کے لئے نکلنے والوں پر کیا گزری؟کوئی تو جان لے کہ پاکستان کی تعمیر میں ان بیرون ملک پاکستانیوں کا کتنا ہاتھ ہے؟قیاس دین گجر کے ڈھابے پر کڑاہی گوشت کھاتے ہوئے یہی باتیں ہوتی رہیں۔کمال کا بھائی ہے نسیم محمود چکار کا شہزادہ ہے یہ وہ چھتر چھایا ہے جس کی دوستی لوگ ترستے ہیں۔چند دن پہلے ہی غوری ٹائون میں قیاس گجر کا شنواری کھا کر چھ دن ڈاکٹروں کے پاس چلے گئے مگر آج پھر اسی کے پاس چلے گئے ،کہنے لگے کشمیری ہے گرائیں ہے چلیں آپ گجر بھی ہیں، اور وہ بھی، اسے ایک اور موقع دیتے ہیں۔قیاس نے اپنے ہاتھ جو گوشت کاٹ کاٹ کر پونے سے رہ گئے تھے ہمیں خالی ٹین میں کوئلے بھر دیئے ،مشکل دنوں کے دوست نے خوب مہمان نوازی کی۔قیاس نے ہمیں بتایا کہ وہ انٹر کانٹی نینٹل کا کک رہا ہے(مجھے یقین ہے پانڈے مانجھتا رہا ہو گا)اس نے ہمارے سامنے کوئی ڈیڑھ کلو گوشت بنایا اور اسے پکایا ۔آخر میں اس نے ایک چوتھائی لیٹر کریم ڈال کر کڑاہی کی تباہی کی۔ کھانے کے دوران وہ ایک ماہر باورچی سے زیادہ گل باز زیادہ نظر آیا ہال میں خالی کرسیاں بتا رہی تھیں قیاس دین پٹ چکا ہے۔جیسا تیسا تھا ہم کھا ہی گئے۔

نسیم محمود کے بارے میں تھارو کیہ حال ائے کے نام سے لکھ چکا ہوں۔خوب گوجری بولتے ہیں اور ہم سادہ لوح گجروں کے لطیفے بھی سنا کر دل موہ لیتے ہیں۔اللہ انہیں لمبی عمر دے ان کے بیٹے نے حال ہی کشمیری انتحابات میں حصہ لیا ہے یوسف نسیم ایڈووکیٹ میرے ہاتھوں میں پلا ہے۔مسلم کانفرنس سے تعلق ہے۔اتفاق دیکھئے مسلم کانفرنس کے سردار عبدالقیوم ان کے صاحبزادے سردار عتیق سے گہرا تعلق رہا ہے لیکن پارٹی مجبوریاں ایسی کے الیکشن کے دنوں میں رابطہ تک نہیں کیا اور وہ بھی اتنے زمانہ شناس کہ مجبور بھی نہیں کیا۔ان کا صرار تھا کہ اسے جاری رکھیں۔ایک اور دوست شاہ فہد ہاشمی کی بھی یہی خواہش تھی۔شاعر کو غزل سنانے کا کہہ کر تو دیکھیں بس اسٹینڈ پر لمکا ہوا بھی ہو گا تو ضرور سنائے گا۔لفظ لٹکا بھی لکھ سکتا تھا مگر جو مزہ لمکنے میں ہے لٹکنے میں کہاں؟چلیں ١٩٧٧ میں۔حج کے بعد ظاہر ہے ہم حاجی ہو گئے چار ریال کے ایک لیٹر پیڈ پر ہم نے کوئی پچاس کے قریب خط لکھ کر زمانے بھر کو بتا دیا کہ ہم حاجی افتخار احمدہو گئے ہیں کوئی آخر میں گجر اور کوئی چودھری لکھ دیتا۔خط ہمیں پی او بکس نمبر ١٦٣٣ پر ہی آتے رہے۔ یاد رہے یہ کمپنی سہگلوں کے داماد میاں منشاء کی تھی۔

جی ہاں آج کل والے میاں منشائ۔کیا زمانہ تھا ایک ایک خط کو بیسیوں مرتبہ پڑھنا ایک سب سے بڑا تحفہ کیسٹ تھا جس کسی کو آ جاتی وارے نیارے ہو جاتے کپڑے میں بند کی ہوئی کیسٹ میں اپنے پیاروں کی آواز کتنی بھلی سنائی دیتی تھی۔مجھے پاکستان سے آئے کوئی پانچ ماہ ہو چکے تھے اس وقت دو پاکستانی ملتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہاں کے رہنے والے ہو؟کیا کام کرتے ہو اور کتنے پیسے پاکستان بھیجے ہیں۔میں کیا بھیجتا کسی کام پے ٹک ہی نہیں سکا تھا۔حج کے بعد کوشش کی مگر کارے ندارد۔ گھر کچھ بھی بھیج سکا ۔والدین بہن بھائیوں کا فکر اپنی طرف بہت تھا۔مگر ہاتھ ہی نہیں پڑتا تھا۔جو کام بھی کرتا کر نہ پاتا۔سوچا اب کیا کروں۔میرا خلیرہ بھائی در ایمان فالکن ہزارہ والے، اللہ اسے خوش رکھے میرا دوست بھی تھا اس نے کسی سے بات کی اور مجھے جدہ کی بندر گاہ پر کام کرنے والی ایک کمپنی جس کا نام کاسٹن تھا اس میں لیبر فورمین بھرتی کرا دیا۔مجھے آٹھ بندوں کی گینگ دے دی گئی میرا کام ان کی نگرانی کرنا تھا گرمیوں کے دن تھے۔

Hajj

Hajj

حج کے بعد ایک رومال بھی لے لیا تھا جدہ کا سورج اور اس کے اوپر سمندری ہوئیں اگر یہ نہ ہوتا تو جھلس کے رہ جاتا ۔طبیعت ویسے بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی گھر سے کہا جاتا پیسے بھیجنے کی فکر نہ کرو اپنی صحت کا خیال کرو فروٹ کھایا کرو،فروٹ ہا ہا ہا کس کے نصیب میں تھاگر کچھ کماتا تو ان دو چیزوں کی فکر کر سکتا تھا،سوکھ کے کانٹا ہو گیا تھا۔کاسٹن میں کام کرنے کا مزہ آیا پہلے مہینے ٢١٠٠ ریال دیکھے تو ہاتھ پائوں پھول گئے یقین کیجئے میں نے ٤٢٠٠٠ ریال بھی تنخوا لی مگر جو مزہ ان ٢١٠٠ کا تھا ان میں نہیں تھا۔میرا کام یہ ہوتا تھا کہ آٹھ دس لڑکوں کو لے کرجٹی نمبر ١٦ پر لگی سلیبوں کے درمیان مٹی ڈلوائوں۔میرے ساتھ فیصل آباد کے دو لڑکے بھی تھے۔وہ تنگ کیا کرتے تھے ایک ڈمپر ریت جو ایک چھوٹا ڈمپر تھا اسے صبح سویرے الٹ دیا جاتا ہمارے کام یہ تھا کہ شام تک اس ریت کو سوراخوں میں برش کی مدد سے ڈال دیا جائے۔مجھے اللہ نے ایک ایسی طاقت بخشی ہے کہ زندگی میں کوئی چیلینج ملنا چاہئے،مد مقابل ہمالہ ہو ڈٹ جاتا ہوں۔میں اگلے دن ایک برش اپنے لئے بھی لے لیا اور کاسٹن کی دیگر گینگوں کا مقابلہ کیا اور ان میں نمبر ون گینگ بن گئی۔ایک روز مجھے پریشانی لگ گئی کے کالا نامی فیصل آبادیاغائب ہو گیا میں حیران تھا کہ اس بڑے میدان سے وہ کہا جا سکتا ہے ڈھونڈنے پر پتہ چلا وہ ساتھ ہی ریڑھی کے ساتھ بوری لٹکا کر چھپا ہوا ہے۔

کالا بہت تنگ کرنے لگا میری ٹیم کی کارکردگی پہلے نمبر سے تیسرے پر آ گئی جنرل فورمین مسٹر رش نے میری ڈانٹ ڈپٹ کی۔مسٹر ٹم جو مجھے چاہتا تھا اس نے بھی غصہ کر نا شروع کر دیا مجھے آخر میں کالا کی چھٹی کروانا پڑی۔دوستو!ٹیم ورک میں کوئی ایک بھی غلط ہو گا آپ پیچھے رہ جائیں گے یہ دنیا بیڈ پرفارمنس والوں کی نہیں ہے۔اس کمپنی میں مجھے بڑا تجربہ حاصل ہوا گورہ کلچر دیکھا ان لوگوں کا ہم برائون اور کالوں سے بہت برا سلوک ہوتا تھا سارے آوارہ گرد گورے اپنے ملکوں کے ناکام ترین لوگ تھے ہم پڑھے لکھے لوگوں پر دہشت پھیلا کر حکومت کرتے تھے۔گالی گلوچ بکنا ان کا شیوہ تھا۔ہم بھی غلام لوگ انہیں پہلے روز ہی سے مسٹر کہہ کر بلاتے تھے۔وہ بعض اوقات خود حیران ہو جاتے تھے۔سعودی عرب میں گورا ہونا ضروری ہے تعلیم معمولی بھی ہو گی زبردست تنخوا لگے گی۔راستے کی دیواریں خود بخود ہٹتی جائیں گی۔سچ پوچھیں ایک نمبر کے فراڈئے لوگ ہیں کمپنی کھا جائیں گے ڈکار تک نہیں ماریں گے۔اسی کمپنی میں ایک روز یہ طے ہوا کہ ٩٠ میٹر بلند روشنی کے ایک مینار کھمبے کو رنگ کرنا ہے۔ایک گورا جو رنگ ساز تھا اس نے میری گینگ کے تین لوگ صرف اس وجہ سے نکال دئے کہ وہ اس کے ساتھ ڈولی میں بیٹھ کر اوپر رنگ کرنے نہیں گئے۔جو کوئی انکار کرتا فائر کی آواز آتی اور وہ نوکری سے فارغ۔۔مجھے اس نے کہا لانگ مین ول یو گو ود می میں بلا تاخیر کہا یس سر میں جائوں گا۔اس دوران طویل بے کاری پاکستان، گھر، بہن بھائی سب یاد آ گئے۔

میری نظروں میں میرے والدین بھی تھے جو اب تک صرف ٢١٠٠ ریال ہی وصول پا چکے تھے۔ہمیں یہاں سطح سمندر سے ٢٤٠ فٹ اوپر جانا تھا کھمبے کے گرد ایک ڈولی سی بنی ہوئی تھی دونوں طرف لکڑی کی تختی بیٹھنے کے لئے تھی۔یہ تختی کبھی تختہ ء دار لگتی اور کبھی روشن مستقبل ۔نیچے ایک بندہ موٹر چلا رہا تھا جو اس ڈولی کو اوپر لے جا رہی تھی ہاتھ میں رنگ کا ڈبہ اور برش تھا۔ہمیں کھمبے کی بلندی تک جا ر واپسی میں رنگ لگاتے ہوئے اترنا تھا۔۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن جیسے ہی اوپر گئے کھمبا پتلا ہوتا گیا ڈولی ہوا میں لہرانے لگی کھمبے سے ٹکراتی تو جان نکل نکل جاتی تھی۔سوچا پھڑیں نہ مارتا تو اچھا تھا نوکری کہیں اور مل جاتی۔پھر سوچتا سالا گورا بے وقوف نہیں ،اکیلا کیسے مر سکتا ہے۔ ہر مشکل وقت میں بے جی یاد آ جاتیں کہہ کر بھیجا تھا جا بچہ جوان اور گھوڑے کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔

Gujranwala Railway Station

Gujranwala Railway Station

گجرانوالہ کے ریلوے اسٹیشن پر کراچی جاتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا گھوڑا جدہ دبئی یوکرائن جرمنی انڈونیشیا کوریا تھائی لینڈ پتہ نہیں کہاں کہاں ہو آیا ۔واپس آیا تو سب کچھ تھا ماں نہیں تھی انہیں کم از کم یہ تو بتاتا کہ ماں دیکھ میں کتنے پیسے کما کے آ گیا ہوں۔اور اسے یہ بھی بتاتا کہ تیرے بیٹے کے ساتھ کیا کیا کچھ نہیں ہوا۔ اس لمحے میں نے نیچے دیکھا دو چار مزدور چیونٹی کی طرح دکھائی دئے سمند کی طرف نظر گئی تو بے بے یاد آ گئی۔لیکن ایک چیز جس نے حوصلہ دیا وہ یہ تھی کہ یہ اگر اتنا ہی خطرناک تھا تو یہ گورا ادھر کیوں ہے؟اور میں ایک مسلمان پاکستانی اس سے بزدل نہیں ہوں۔اس نے ٹیں ٹیں کرتی ہوئی آواز میں کہا مسٹر گجی ہائو آر یو۔مجھے گجر کی بجائے وہ پیار سے گجی کہہ رہا تھا میں نے کہا ٹم آئی ایم فائن۔دلیری اور بہادری آپ کو ہمت بھی دیتی ہے وہ مجھے مسٹر اور میں اسے اس کے نام ٹم سے پکار رہا تھا۔ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا میرے بازو لمبے تھے میں بڑے مزے سے برش چلتا رہا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں فضاء سے زمین پر آ گئے۔ آتے ہی اس نے میری تنخوا ٤٠٠ ریال بڑھا دی۔یقین کیجئے محنت رائیگاں نہیں جاتی۔میں نے اس دن محسوس کیا اگر آپ کو محنت کا ریوارڈ مل جائے تو آپ ڈبل محنت کرتے ہیں۔ہمارے ہاں اچھا کام کرنے والے کو دانت نکال کر داد دیتے ہیں اس کی جیب میں کچھ نہیں ڈالتے۔اور تو اور مولوی کو تنخوا نہیں دیتے دیتے بھی ہیں تو اتنی جس سے اس کا پیٹ نہیں بھرتا پھر جب وہ گلہ توڑتا ہے تو انگلی اٹھاتے ہیں۔اپنے نوکروں کو تنخوا کے علاوہ ٹپ دیتے رہا کرو۔

کاسٹن میں نے کوئی پانچ ماہ کام کیا کمپنی نے وہ پراجیکٹ خوش اسلوبی سے مکمل کیا جوں جوں کام مکمل ہو رہا تھا لیبر کم ہو تی گئی۔اسی کمپنی میں ایک پاکستانی بھائی جس کا تعلق پشاور سے تھا اس سے ملاقات ہوئی وہ دبئی کاسٹن سے ادھر آئے تھے جعفر خان سے میں نے پوچھا کتنا عرصہ ہوا ہے پاکستان سے آئے کہنے لگے آٹھ سال میں ہنسا اور کہا تمہارا آٹھ سالوں میں پیٹ نہیں بھرا؟وہ بڑی خوبصورت ہندکو بولتا تھا کہنے لگا تکساں جدوں تساں گئے؟میں تقریبا ٢٥ سال وہاں رہا بار بار جاتا رہا کسی بار خروج پر آیا کسی بار جنرل مشرف کی مہربان حکومت میں جرنیلوں کی محبت سے۔مگر ابھی تک دل نہیں بھرا۔اب بھی کسی نے پیار سے بلایا تو چلا جائوں گا۔ صبح گھر سے ناشتہ لے کر جایا کرتا تھا دوپہر کے لئے سالن۔روٹیاں وہیں لی جاتی تھیں۔ہمارے ہاں کم تجربہ کاری تھی دو چار دن کے بعد کہا گیا صاحب آپ سالن لانے کی زحمت نہ کیا کریں روٹی کے پیسے دے دیا کریں۔بندر گاہ پر چیزیں مہنگی تھیں پیپسی دو ریال کی ویمٹو عیاشی کا نشان اڑھائی ریال کی ملتی تھی۔کبھی کبھی یہ عیاشی بھی کر لیتا تھا اور وہ بھی مہینے میں ایک دو بار۔یہاں بے جی یاد آ جاتی ہیں کبھی کبھی انہیں کسی اچھے ہوٹل میں لے جاتا تو کہا کرتیں پتر بل کتنا آیا اے میں کہتا بے جی تسی ایس گل نوں چھڈو۔پھر کہتیں گھر میں وہ چیز لے جاتے۔

یہ میری زندگی کا بھی حصہ رہا ہے۔ بعد میں جب کمپنیوں کا سینئر ممبر بنا تومجھے اللہ نے دنیا کے بڑے ہوٹلوں میں جانے رہنے اور ٹھہرنے کا موقع دیا خرچ کمپنی کا ہو یا ذاتی یقین کریں ذاتی سمجھ کے کیا۔گورے کمپنی وزٹ کرتے تو رات کی فلائٹ لیتے سٹے کرتے اور دسرے دبن واپس آتے میں اکثر تبوک،مدینہ ،ریاض کی فلائیٹیں صبح سویر کی لیتا اور رات گھر لوٹتا۔ پاکستانی روپے کی قیمت دو روپے پچھتر پیسے تھی اب اٹھائیس ہو گئی ہے ہم گرتے ہی گئے۔کاسٹن میں مجھے بھائی عبدالزاق نے لگوایا تھا امیر صاحب آفس مینجر تھے باقیوں کا نام یاد نہیں۔انہی دنوں پتہ چلا ملک خالد غیر قانونی لوگوں کے لئے مراعات کا اعلان کرنے والے ہیں۔ہم خواب بننا شروع ہو گئے ہر کوئی کہتا اب ہم گاڑی لے لیں گے۔میں بھی سوچتا کہ مزدا ٩٢٩ لوں گا سرخ رنگ کی گاڑی میرا خواب تھی۔کاسٹن سے چل چلائو کا دور تھا۔ادھر کلو ستہ کے مکان کی اپنی رونقیں تھیں جہاں ہم اب ایک کمرے میں ٥ ہو گئے۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : افتخار چوہدری