انقرہ (جیوڈیسک) ترک صدر ایردوآن نے کہا ہے کہ استنبول کے سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو سعودی حکام نے باقاعدہ پیشگی منصوبے کے تحت قتل کیا تھا۔ ایردوآن کے بقول سفارت کاروں کو حاصل قانونی تحفظ کو قتل کے لیے ڈھال نہیں بنایا جا سکتا۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے منگل تئیس اکتوبر کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق ترک سربراہ مملکت نے یہ بات اپنی جماعت اے کے پی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ترک صدر نے اتوار کی رات ہی کہہ دیا تھا کہ وہ خاشقجی کے قتل سے متعلق وہ ’ساری تفصیلات‘ منگل کو اپنے اسی خطاب میں منظر عام پر لے آئیں گے، جو اب تک کی چھان بین کے نتیجے میں ترک تفتیشی ماہرین کو دستیاب ہیں۔
اپنے اس خطاب میں رجب طیب ایردوآن نے کہا، ’’جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی استنبول میں سعودی قونصل خانے کے حکام اور سعودی عرب سے آنے والی ایک ٹیم نے کئی روز پہلے سے کر رکھی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس امر کے بہت واضح شواہد موجود ہیں کہ خاشقجی کی ہلاکت پیشگی تیاری کے ساتھ قتل عمد کا واقعہ تھا اور سعودی حکمرانوں کے ناقد اس صحافی کو بڑی ’بربریت‘ سے قتل کیا گیا۔
ترک پارلیمان میں حکمران جماعت اے کے پی کے ارکان سے اپنے خطاب میں ملکی صدر نے مزید کہا کہ انہوں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کو بتا دیا تھا کہ استنبول میں سعودی قونصل جنرل ایک ’نااہل‘ شخصیت تھے اور اسی لیے ریاض حکومت نے اس سفارت کار کو ان کے فرائض سے سبکدوش کرتے ہوئے واپس بلا لیا تھا۔
اس موقع پر ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی ملک میں تعینات کسی دوسری ریاست کے سفارت کاروں کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے خلاف قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم اس تحفظ کو کسی دانستہ قتل کے لیے ڈھال نہیں بنایا جا سکتا اور ویانا کنوینشن بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
رجب طیب ایردوآن کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں اب تک سعودی عرب میں جن 18 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، ان کے کوائف خاشقجی کے قتل کے انہی ملزمان سے ملتے ہیں، جن کی شناخت ترک خفیہ ادارے کر چکے ہیں۔ ’’اس لیے میں چاہتا ہوں کہ چونکہ یہ قتل استنبول میں ہوا، لہٰذا اس کے مجرموں کے خلاف مقدمات بھی ترک عدالتوں ہی میں چلائے جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان اس قتل کی مکمل چھان بین اور قانونی کارروائی کو تکمیل تک پہنچانے میں پورا تعاون کریں گے۔‘‘
ترک سربراہ مملکت کے مطابق، ’’جمال خاشقجی کا قتل ایک ایسی وحشیانہ کارروائی تھا، جسے کسی بھی طور چھپایا نہیں جا سکتا۔‘‘ صدر ایردوآن نے زور دے کر کہا، ’’سعودی عرب کو لازمی طور پر اس امر کی مکمل وضاحت کرنا چاہیے کہ اس قتل کا حکم کس نے دیا تھا اور خاشقجی کی لاش کہاں ہے۔‘‘
ترک میڈیا اور تفتیشی ماہرین کے مطابق استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی کمانڈوز کی ایک 15 رکنی ٹیم نے دو اکتوبر کو وہاں جانے والے جمال خاشقجی کی مبینہ طور پر پہلی انگلیاں کاٹ دی تھیں اور پھر انہیں قتل کر کے ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے۔