تحریر: حبیب اللہ سلفی سعودی عرب روانگی سے قبل اسلام آباد ایئرپورٹ کے لائونج میں وضو کرنے کے بعد احرام پہنا توکفن سے مشابہ دو چادریں جسم کے گرد لپیٹنے پر عجب احساس ہوا۔حج کیلئے جانے والے سبھی افراد یہاں احرام زیب تن کر رہے تھے اور یقینی طور پر ہر ایک کے ذہن میں یہ احساس تھا کہ ان کی شخصیت اب ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ ان کی انا، انفرادیت، پسندیدہ کپڑے اور نت نئے ملبوسات کچھ بھی ان کے ساتھ نہیں ہے۔یہ ہماری اپنی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پسند ہے۔
شاید حج کی تیاری کے ساتھ ہی عازمین کو آخرت یاد دلانا مقصود ہے کہ وہ احرام کی دو چادروں میں چھپے پیغام کو سمجھ لیں اور اپنی جھوٹی اناکے خول سے باہر نکل آئیں ‘ایک گندے قطرے سے پید ا کی گئی اپنی تخلیق پر غور وفکر کریں، غفلت پسندی ترک کریں اور ایک اللہ کی وحدانیت کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو کتاب وسنت کے تابع کر دیں۔
حج کیلئے روانگی سے قبل اسلامی شریعت نے اپنی نیت کو خالص کرنے، تمام سابقہ گناہوں سے معافی مانگنے، بیہودہ و شہوانی اقوال و افعال ، لڑائی جھگڑے، فسق و فجور سے بچنے اورتقویٰ وپرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اسلئے حتی الامکان ان باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے احرام زیب تن کرنے والے ہر شخص کے چہرے پر روحانی سکون او ر طمانیت کی جھلک نظر آئی۔ میرا احرام پہننے کا یہ پہلا تجربہ تھا اس لئے اسے سنبھالنا خاصا مشکل ہو رہا تھا ۔ ایک سائیڈ سے چادر ٹھیک کرتا تو دوسری جانب سے اوپر نیچے ہو جاتی۔ اگرچہ میں نے تہبند کی طرح باندھے احرام کی چادر پر بیلٹ بھی باندھ رکھی تھی تاہم اس کے باوجود کئی مرتبہ یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بیلٹ کھل کر نیچے نہ جا گرے۔ میری طرح کئی دوسرے احباب بھی اسی کیفیت میں نظر آئے۔ شام کے وقت ہماری فلائیٹ تھی۔ نماز مغرب اور عشاء ایئرپورٹ پر جمع کیں اور پھر سعودی ایئرلائنز کی فلائیٹ پر سوار ہو گئے۔
میں اور محترم سعید آسی صاحب جہاز میں اپنی نشستوں پر بیٹھے توچند لمحوں بعد اسلام آباد کے سینئر صحافی حنیف خالد اور شوکت پراچہ بھی اندرداخل ہوتے نظرآئے جو ہمارے قریب ہی نشستوں پر بیٹھ گئے۔جہاز بہت آرام دہ اور اسٹاف بھی بہت اچھے اخلاق کا حامل تھا ۔ اسلام آباد سے جدہ تک کا سفر بہت شاندار رہا۔ ایئرپورٹ پہنچے تو احرام پہنے دیکھ کر بہت عزت اور وقار کے ساتھ بس کے ذریعہ ہمیں حج ٹرمینل پر پہنچا دیا گیا جہاں دنیا بھر کے مختلف خطوں و علاقوں سے آنے والے عازمین حج موجود تھے۔ یہاں ان کی ویکسی نیشن کے کارڈ چیک کر کے اور پولیو کے قطرے پلا کر آگے روانہ کیا جارہا تھا۔ہمارے پاسپورٹ پر چونکہ ”زیارة حکومیہ” لکھا ہوا تھااس لئے وہاں موجود ایئرپورٹ کا عملہ کچھ کنفیوژن کا شکار ہو گیا کہ ان کا تو وزٹ ویزہ ہے اور انہوںنے احرام پہن رکھا ہے یہ حج کیلئے کیسے جائیں گے؟ تاہم ان کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ انہیں دوسرے ٹرمینل پر بھیج دیا جائے وہاں سے انہیں آگے بھجوایا جائے گا جس پر دوبارہ بس میں سوار کروا کے ہمیں ایک اور ٹرمینل پر بھجوادیا گیا۔
Islamabad Airport
یہاں حجاج کرام میں سے کوئی موجود نہیں تھا۔ اس صورتحال پر عارضی طور پر تو ہمیں کچھ پریشانی سی محسوس ہوئی ‘ میں نے اور سعید آسی صاحب نے وہیں سے ایک سو ریال کی ٹیلیفون سم خریدی اور پھر سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے ایک عہدیدار عبدالرحمن نیازی سے رابطہ کیا جن کا نمبر سعید آسی صاحب کے پاس موجود تھا۔ جب انہیں ساری صورتحال بتائی تو چند منٹ بعد ہی انہوں نے اپنا ایک آدمی ہمارے پاس بھیج دیا جو ہمیں لینے کیلئے پہلے سے ہی ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ سعودی وزارت اطلاعات کا مذکورہ رکن ہمیں بہت آسانی سے ضروری دستاویزات اور سامان چیک کروانے کے بعد ایئرپورٹ سے باہر لے آیا جہاں تین گاڑیاں ہمیں ہماری منزل تک پہنچانے کیلئے تیار کھڑی تھیں۔ حنیف خالد اور شوکت پراچہ صاحب کے ساتھ چونکہ ان کی فیملیاں بھی تھیں اس لئے انہیں الگ الگ گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا جبکہ میں اور سعید آسی صاحب ایک دوسری گاڑی میں سوار ہو گئے۔
یوں کچھ دیر بعد ہم ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تو بیس پچیس منٹ بعد ہمیں Movenpickنامی ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا دیا گیاجہاں سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کی جانب سے ہمارے لئے رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جب ہم ہوٹل میں پہنچے تو نماز فجر کا وقت قریب تھا۔ اپنے کمرے میں جانے کے بعد وضو کیا، نماز فجراد اکی اور اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کی پریشانیوں وآزمائشوں سے محفوظ رہنے اور آسانیوں کی دعائیں کرنے کے بعد سونے کا ارادہ کیا کیونکہ کئی گھنٹے کے سفر اور ایئرپورٹ سے چیکنگ کے بعد یہاں پہنچنے تک کافی تھکاوٹ ہو چکی تھی۔
تین چار گھنٹے سونے کے بعد طبیعت کچھ تروتازہ ہوئی اور ناشتہ کر کے دوبارہ کمرے میں آکر لیٹا توسعید آسی صاحب نے فون کر کے بتایا کہ نوائے وقت جدہ کے بیوروچیف امیر محمد خاں صاحب آئے ہیں آپ بھی میرے کمرے میں آجائیں۔ میری خاں صاحب کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ وہ بڑے پرتپاک انداز میں ملے،باہمی تعارف کے بعد انہوں نے پاکستان کے کئی سینئر صحافی دوستوں کا حال احوال پوچھااور ملکی سلامتی کے امور کے حوالہ سے گفتگو ہوئی تو ان کے ایک ایک لفظ سے وطن عزیز پاکستان سے محبت جھلکتی نظر آئی ۔ اس دوران انہوں نے محترم مجید نظامی صاحب کی سعودی عرب آمد اور پچھلے بیس سال سے زائد عرصہ میں ان سے ہونیو الی ملاقاتوںکا احوال بیان کیا تو بے اختیار مجید نظامی صاحب کیلئے دل سے دعائیں نکلیں۔
ہم جتنے دن بھی جدہ میں رہے امیر محمد خاں صاحب اور شاہد نعیم صاحب مسلسل ہمارے رابطہ میں رہے اوروقتا فوقتا ان کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں گھومنے پھرنے کا موقع بھی ملا۔اس دوران ہم نے سرور پیلس بھی دیکھ لیا جہاں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی فیملی نے اپنی جلاوطنی کے مشکل ترین ایام گزارے۔ مشکل اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انسان کو جس قدر بھی سہولیات مل جائیں’ جب اس پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور پھرخاص طور پر ایسا شخص جسے یہ معلوم ہو کہ وہ اپنے اس ملک میں واپس نہیں جا سکتا جہاں کا وہ وزیر اعظم رہا ہے تو پھر تمامتر آسائشوں کے باوجوددن گزارنا بہرحال مشکل ہو جاتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران امیرمحمد خاں صاحب کی ان سے بہت ملاقاتیں رہیں۔ہمارے استفسار پر انہوں نے کئی ایک ایسی باتیں بھی شیئر کیں جو ہمارے لئے نئی تھیں اور بلاشبہ اب تک میڈیا کی زینت بھی نہیں بن سکیں۔ جدہ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے پاکستان جرنلسٹ فورم کے نام سے ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے جس کے چیئرمین امیر محمد خاں اور صدر شاہد نعیم صاحب ہیں۔ جدہ میں پاکستانی صحافیوں کا یہ ایک بہت موثر پلیٹ فارم ہے جو ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنے اورصحافیوں کو درپیش مسائل حل کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ امیر محمد خاں اور شاہد نعیم صاحب ہمیں سعودی عرب کے اردو میں شائع ہونے والے سرکاری اخبار اردو نیوزجدہ کے دفتر میں بھی لے کر گئے جہاں اخبار کے نیوز ایڈیٹر سید ابصار علی، عبدالستار خاں، لیاقت انجم و دیگر دوست احباب سے بہت اچھی ملاقات ہوئی۔ یہ ایک زبردست مجلس تھی’ سبھی احباب بہت محبت سے پیش آئے۔
اردو نیوز میں کام کرنے والے جرنلسٹ پچھلے کئی کئی سال سے یہاں مقیم ہیں اورکامیابی کے ساتھ اخبار نکال رہے ہیں جوسعودی عرب سمیت گلف کی مختلف ریاستوں میں موجود اردو بولنے اور سمجھنے والوں میں بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اس محفل دوستاں میں شریک ہو کر اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستان سے باہر جا کرآباد ہونے والوںکے دلوں میں اپنے ملک کی مٹی اور یہاں کے لوگوں سے محبت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اپنے ملک کے کسی شہری سے ان کی ملاقات ہوتی ہے تودونوں طرف سے زبردست اپنائیت اور محبت کا اظہار دیکھنے میں آتا ہے۔جدہ میںہونیو الی مزید ملاقاتوں اورگزرے دنوں کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں جنہیں ان شا ء اللہ آئندہ تحریر میں لائوں گا۔