تحریر: حبیب اللہ سلفی سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور دو طرفہ دفاعی شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی ملاقات کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے سی پیک منصوبہ میں شمولیت کی خواہش کا اظہار اور چاہ بہار کے مقابلہ میں گوادر کیلئے سرمایہ کاری پرآمادگی ظاہر کی ہے۔ اسی طرح داعش جیسی دہشت گردتنظیم کیخلاف اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق رائے کا اظہارکیا گیا۔ملاقات میں پاک سعودی عرب تعلقات، مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔سعودی نائب ولی عہد کی پاکستان آمد پران کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا جس میں وفاقی وزراء اور فوج کے سربراہان موجود تھے۔
سعودی ولی عہد نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گاجبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب میں گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک کی دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان بھی اس کے ساتھ ہو گا۔سعودی نائب وزیر دفاع نے پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کر کے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور دو طرفہ دفاعی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان دورہ چین کے بعد جاپان جائیں گے اور اس کے بعد دوبارہ چین آکر چار اور پانچ ستمبر تک جی ایٹ اجلاس میں شریک ہوں گے۔
سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان ان حالات میں پاکستان کے دورہ پر پہنچے ہیں کہ جب وطن عزیز پاکستان کیخلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ افغانستان کو بیس بنا کر پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے اور ملک کے دیگر علاقوںمیں تخریب کاری و دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کیخلاف بھی سازشیں عروج پر ہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم نے بھی ہلاکو اور چنگیز خاں کے مظالم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ خاص طور پر شام میں صورتحال بہت خراب ہے۔ ایران کی امریکہ سے قربت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر میں بھارت پیش پیش ہے۔ اسی طرح بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی ایران سے پاکستان آمد نے بھی حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ ان حالات میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
Prince Mohammad Bin Salman
خاص طور پر سعودی عرب کا سی پیک منصوبہ میں شمولیت کی خواہش اور چاہ بہار بندرگاہ کے مقابلہ میں گوادر پر سرمایہ کاری کو انتہائی خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ گذشتہ برس چینی صدر شی چن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران جب سے 51معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں’ بھارت کے پیٹ میں اس وقت سے سخت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ان معاہدوں میں سے تیس سے زائد منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق ہیں اسلئے وہ دہشت گردی و تخریب کاری کے ذریعہ مسلسل اس منصوبہ کو سبوتاژکرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
سی پیک منصوبہ کو جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور وزیر اعظم نواز شریف کے مطابق اس منصوبہ کو ”گیم چینجر” کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونیوالا یہ تجارتی راستہ پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچے گا۔ اس راستے کو بنانے میں چین کی دلچسپی یہ ہے کہ آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا اور ملائشیا کو علیحدہ کرتی ہے اور چین سے لے کر ویت نام ،ہانگ کانگ سے تائیوان اور جنوبی کوریا سے جاپان تک تمام ممالک کا تجارتی راستہ ہے اس پر انحصار کم کر کے ایک چھوٹا تجارتی راستہ بنایاجائے تاکہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات کم خرچ اور کم وقت میں پہنچ سکیں۔ آبنائے ملاکہ سے چینی تجارتی سامان کو یورپ اور دیگر منڈیوں تک پہنچنے میں پینتالیس دن لگتے ہیں جبکہ کاشغر تا گوادر اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ سفر کم ہو کر دس دن کا رہ جائیگا۔پاکستان کو اس راہداری سے یہ فائدہ ہوگا کہ یہ ملک تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہو کر معاشی ترقی کر سکے گا اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک تک کا سفر تیزی سے طے ہو گا۔ چین نہ صرف گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کی تکمیل چاہتا ہے بلکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ مل کرا سی طرح کے سمندری تجارتی راستے بھی کھولنا چاہتا ہے۔
یہ منصوبہ معاشی استحکام کے علاوہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اوردیگر علاقوں میں جاری علیحدگی کی تحریکوں کیلئے بھی زہر قاتل ثابت ہو گا کیونکہ معاشی استحکام آنے سے یہ تحریکیںبہت حد تک خود بخودکمزور ہو جائینگی۔ راہداری منصوبہ سے تمام صوبوں کو فوائد ملیں گے اور اس سے ملک میں امن و خوشحالی آئے گی یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے اعلان پر بھارت کے اوسان خطا ہیں اور وہ ہر صورت اسے ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس مسئلہ کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا دیا جائے۔ انڈیا کی طرف سے راہداری منصوبہ کی مخالفت بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے والے بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اورہر وقت پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی سازشیں کی ہیں۔ اس لئے اب بھی وہ اپنی ان مذموم حرکتوں سے کسی صورت باز نہیں آئیگا۔
Narendra Modi
اب تو یہ خبریں بھی کھل کر منظر عام پر آچکی ہیں کہ انڈیا نے راہداری منصوبہ ناکام بنانے کیلئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کا کام ہی اس منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے قتل و خون بہانا ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی طرف سے پاک چین راہداری منصوبہ کی مخالفت عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ انڈیا کا اس راہداری منصوبہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسکے باوجود یہ منصوبہ اسے برداشت نہیں ہو رہا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس منصوبہ کو نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیل سے بھی بہت قربت بڑھائی ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے اور پاکستانی سرحد پر باڑ لگانے سمیت حساس سینسرز لگانے میں اسرائیل نے بھارت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہی سے دوچار کرنے کیلئے بھی اسرائیلی طیارے سری نگر میں تیار کھڑے تھے کہ پاکستان نے بروقت معلوم ہونے پر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔اس وقت ان حالات میں بھی کہ جب پاک چین راہداری منصوبہ سے پورے خطہ میں ترقی کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
بھارت سرکار نے اس کیخلا ف سازشیں تیز کر دی ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ یہ مذموم منصوبے ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوں گے۔پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے داعش جیسی تنظیم کیخلاف بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت حقیقی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی سمیت مسلم دنیا کے اہم ممالک اندرونی سازشوں کا شکار ہیں اور دشمنان اسلام’ مسلم ملکوں و معاشروں میں امن و امان کی بربادی کیلئے تکفیر اورخارجیت کا فتنہ پروان چڑھانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کر رہے ہیں۔سعودی عرب میں مساجد وامام بارگاہوںمیں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی’ سب کے پیچھے دشمن قوتوںکاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں پر حملے کروائے جاتے ہیں’ بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کیلئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے جو پچھلے کئی برسوں سے کی جا رہی ہے۔
پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر حملہ آوروں کا تعلق مختلف مسلم ملکوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور پھر صلیبی ملکوں کا بڑ ااتحاد بنا کر افغانستان پر چڑھائی کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عراق میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمانوں کو شہید کر کے اپنی پسند کے لوگوں کو وہاں اقتدار دلوایا اور بعد میں ٹونی بلیئر جیسے برطانوی حکمران معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں کہ عراق پر حملہ کیلئے جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہو سکے اور اسی حملہ کے نتیجہ میں داعش وجود میں آئی ہے۔ پہلے نائن الیون حملہ کو بنیاد پر دو مسلم ملکوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک سلسلے پروان چڑھائے گئے جبکہ اسی طرح داعش کے خاتمہ کے نام پر شام میں بے گناہ سنی مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ امریکہ کی زیر قیادت اتحادیوں کو داعش کی دہشت گردی ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی میدانوں میں فتح حاصل ہوئی ہے ‘ کفار کی جانب سے مسلم معاشروں میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھایا گیا۔حال ہی میں افغانستان میں اتحادیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تواس خطہ میں بھی داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری کی جارہی ہے تاکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، دہشت گردی وتخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے اور اسلام دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں۔اسی طرح مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کے امن کو برباد کرنے کی بھی خوفناک سازشیں کی جا رہی ہیں۔
مدینہ میں مسجد نبوی سمیت دیگر مقامات پر خودکش حملوں کی کوششیں انہی سازشوں کا حصہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروںمیں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کیخلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا فوجی اتحاد جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 34اسلامی ممالک شامل ہیں’انتہائی خوش آئند اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب پہلے بھی دہشت گردی کے اس فتنہ کو ختم کرنے کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے نیٹ ورک بکھر کر رہ گئے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں اور سعودی فورسز کو اہم کامیابیاں حاصل ہور ہی ہیں۔ امام کعبہ الشیخ عبدالعزیز سمیت دنیا بھر کے علماء کرام نے مسلم ملکوں میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا او ر داعش جیسی تنظیموں کے نظریات کو گمراہ کن کہتے ہوئے نوجوان نسل کو ان سے بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالہ سے یقینی طور پر نظریاتی محاذ پر بھی سرگرم کردار ادا کیا جائے گا۔
بہرحال پاکستان اور سعودی عرب کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کاوشوں کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح سی پیک منصوبہ میں سعودی عرب کی شمولیت کے بھی بہت زیادہ فوائد ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اتحاد کی کامیابی کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھیں اور اس حوالہ سے کسی قسم کے بیرونی دبائو کو خاطر میں لانے کی بجائے مسلم ملکوں کے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل کرے گا اور مسلم امہ کو کامیابیوں سے نوازے گا۔