یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1801 ء میں موجودہ سعودی خاندان نے ارض حجاز پر بزور شمشیر قبضہ کیا تھا۔ اس خاندان کے سربراہ کا نام عبد العزیز تھا۔ عبدالعزیز کے ایک بیٹے سعود تھے جو دراصل فوجی کاروائیوں میں بہت شہرت اختیار کر گئے تھے اوراس میں بڑی مہارت بھی رکھتے تھے چنانچہ ان کی سربراہی میں حملوں کا آغاز ہو۔ سب سے پہلے انہوں نے عراق میں پیش قدمی کی اور کربلائے معلی پر قبضہ کیا۔ وہاں کے تمام مقدس مزاروں کو ملیامیٹ کر دیا اور اس کا یہ موقف پیش کیا کہ یہ سب شرک کی باتیں ہیں اور ان میں کوئی تقدس نہیں ہے، اینٹ پتھر کی چیزیں ہیں ان کو مٹا دینا چاہیے۔ پھر کربلائے معلی میں بسنے والے مسلمانوں کا جو اکثر شعیہ تھے، قتل عام کیا اور پھر بصرہ کی طرف پیش قدمی کی اور کربلائے معلی سے لے کر بصرہ تک کے تقریبا تمام علاقوں کو تاخت و تاراج کرکے شہروں کو آگیں لگا دیں گئیں، قتل عام ہوا، لوٹ مار کی گئی ہر قسم کے مظالم جو آج بھی مصر اور شام میں روا رکھے جا رہے ہیں ان سے بڑھ کر مظالم اسی خاندان نے عراق کے علاقے میں کئے، وہاں سے طاقت پکڑنے کے بعد پھر ارض مقدس کی طرف رخ کیا اور ارض حجاز میں طائف پر قبضہ کر لیا۔
1803 ء میں یہ مکہ اور مدینہ میں داخل ہو گئے اور یہاں بھی قتل عام کیا گیا اور بہت سے مزار گرا دیئے گئے اور بہت سی مقدس نشانیاں اور حجرے، مقامات مثلا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا مولد وغیرہ کو منہدم کر دیا گیا یا ان کی شدید گستاخی کی گئی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ اسلام میں ان چیزوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے یہ سب شرک ہے۔ اس وقت جو خون خرابہ ہوا اس کا کوئی معین ریکارڈ نہیں لیکن تاریخ یہ لکھتی ہے کہ بالکل نہتے اور بے ضرر اور مقابلے میں نہ آنے والے شہریوں کا بھی قتل عام بڑی بے دردی سے کیا گیا۔ 1813 ء میں محمد علی پاشا حاکم مصر نے ان علاقوں کو سعودیوں سے خالی کر والیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دوبارہ سعودیوں نے ارض حجاز پر یلغار کی اور اس دفعہ انگریزوں کی پوری طاقت ان کے ساتھ تھی، انگریز جرنیل با قاعدہ ان کی پیش قدمی کی سکیمیں بناتے تھے۔
انگریز ہی ان کو اسلحہ اور روپیہ پیسہ مہیا کرتے تھے، بالکل ایسے ہی جیسے کہ آج سعودی عرب امریکہ کو شام پر حملہ کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور اس صورت میں امریکہ کے فوجی سازو سامان کا خرچہ اٹھانے کو بھی تیار ہے۔ 1924 ء میں سعودی خاندان انگریزوں کی تائید سے ایک دفعہ پھرا رض حجاز پر قابض ہوا اور اس قبضے کے دوران بھی بہت زیادہ مقدس مقامات کی بے حرمتی کی گئی اور قتل عام ہوا۔ بی بی سی نے اپنی ایک دستا ویزی فلم دکھائی اس میں 1924 ء سے بھی پہلے انگریزوں کی تائید کا ذکر کرتے ہوئے BBC کے پروگرام پیش کرنے والے نے یہ مئوقف پیش کیا کہ جس ملک پر سعودیوں نے ہماری تائید سے اور ہماری قوت سے قبضہ کیا تھا اب اس ملک کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ پس اس نقطئہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو بات با لکل اور شکل میں دکھائی دینے لگتی ہے۔
USA
جو بھی حکومت اس وقت مقامات مقدسہ پر قابض ہے اوہ انگریز کی طاقت سے قابض ہوئی تھی یا مغربی قوموں کی طاقت سے قابض ہوئی تھی اور اب دفاع کی بھی ان میں یہ استعاعت نہیں ہے کہ ان مقامات کا دفاع کر سکیں اور مجبور ہیں کہ ان قوموں کو واپس اپنی مدد کے لئے بُلائیں۔ اب تمام دنیا پر انگریز کی ایک ہی قسم کی حکومت ہے یہ دونوں آپس میں مد غم ہو چکے ہیں۔ ان کے تصورات یکجا ہو چکے ہیں یعنی امریکہ اور انگلستان ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اس حوالے سے انگریز نے اپنا تاریخی ورثہ امریکہ کے سپرد کیا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ خاص طور سے امت مسلمہ کے خلاف ہونے والے فیصلوں میں یہ دونوں ملک ہمنوائی کرتے نظر آتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ عالم اسلام پر جب بھی کوئی مصیبت وارد ہوتی ہے تو غیروں سے اتنا خطرہ لاحق نہیں ہوتا جتنا کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں یا مسلم ممالک کو دوسرے مسلم ممالک سے ہو تا ہے۔
پھر اس میں غیر قوموں کی مدد بھی شامل حال ہوجاتی ہے۔ ایران، عراق کی طویل گیارہ سالہ خانہ جنگی ہو، عراق کا کویت پر قبضہ ہو، بوسنیا کے مسلمانوں پر ہونے والے اندوہناک مظالم ہوں۔ افغانستان کی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی ہو یا پھر شام اور مصر کے دردناک حالات ہوں، کہیں بھی آپ کو سعودی عرب کا مسلمانوں کے ساتھ اخوت اور ہمدردی والا کردار، رویہ یا مدد نظر نہیں آتی، اس کے برعکس یہ ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیتا یا ان کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے باوجود اس حقیقت کو جاننے کے کہ امریکہ کی پشت پر اسرائیل کھڑا ہے۔ اور یہی امت مسلمہ کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ کہ اک زرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا ، کچھ لوگ پہچانے گئے مگر افسوس ۔۔! مغربی دنیا کے ان عرب دوستوں کے متعلق یہ حسرت سے کہنا پڑتا ہے کہ زرا سی بات تو درکنار۔
عالم اسلام پر قیامت بھی ٹوٹ جائے تو ان کے برسوں کے یارانے نہیں جاتے اور نہ ان سے دوست دشمن پہچانے جاتے ہیں۔ اگر اب بھی امت مسلمہ تقوی سے کام لے اور اپنے تمام فیصلے خدا خوفی اور اپنے عوام کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کرے تو یقینا ایک ایسا عظیم الشان انقلاب رونما ہوگا، جس میں سب امن و سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔ اس کا آغاز جتنی جلدی ہوگا اتنی ہی جلدی ہم اچھے دور کو دیکھ سکیں گے، یقینا ایک ایسا دور جو گزشتہ ادوار سے بہتر ہو گا اور بہتر ہوتا چلا جائے گا۔ اس لئے کہ مسلم ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں دنیا کے چار سربراہ مملکت اس وقت دنیا کے امیر ترین حکمران ہیں ان برونائی کے بادشاہ، ابو ظہبی کے شیخ النہان، سعودی عرب کے کنگ عبد اللہ اور شیخ محمد بن راشد شامل ہیں۔ مگر سوال یہ ہی ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ فلاح کا یہ پہلا قدم آخر کب اٹھے گا اور کون اٹھائے گا۔