سعودی عرب (جیوڈیسک) امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کو القاعدہ کے حملوں کی تحقیقات پر مبنی رپورٹ کے 28 صفحات برسوں سے باعث نزاع بنے رہے ہیں لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ان صفحات کی اشاعت کے بعد سعودی عرب کا نائن الیون حملوں سے کسی طرح کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے حالانکہ امریکی عہدے داروں اور میڈیا کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف طرح طرح کی چہ میگوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔
بہت سوں کا دعویٰ رہا ہے کہ امریکی حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ کے ماضی میں جاری نہ کیے جانے والے ان صفحات میں سعودی حکام اور مسافر طیاروں کو نیویارک اور واشنگٹن میں ٹکرانے والے ہائی جیکروں سے تعلق کا ذکر تھا جبکہ بعض کا خیال تھا کہ سعودی حکومت خود ان دستاویزات کا افشا نہیں چاہتی تھی۔
امریکی کانگریس نے بالآخر گذشتہ جمعے کے روز پُر اسراریت کا جامہ اوڑھنے والے ان 28 صفحات کو جاری کردیا ہے۔ان کے ملاحظے اور جائزے کے بعد امریکی انٹیلی جنس کے حکام کا کہنا ہے کہ ان سے سعودی عرب کے نائن الیون حملوں سے کسی قسم کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔وائٹ ہاؤس نے اسی روز اس امر کی تصدیق کردی تھی۔
لیکن الریاض میں سعودی حکام کے نائن الیون حملوں سے تعلق کا کوئی ثبوت نہ ملنا کوئی بڑی خبر یا اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ سنہ 2003ء میں نائن الیون کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی تکمیل کے ایک سال بعد ہی اس وقت سعودی وزیر خارجہ (اب مرحوم) شہزادہ سعود الفیصل نے ایک نشری نیوز کانفرنس کے دوران امریکی حکومت سے اس رپورٹ کے 28 خفیہ صفحات کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
شہزادہ سعود الفیصل نے 29 جولائی 2003ء کو واشنگٹن میں سابق امریکی صدر بش سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:”ہمیں یقین ہے کہ ان غائب 28 صفحات کے اجراء کے بعد ہم کسی بھی قسم کے الزامات کا واضح اور قابل اعتبار انداز میں جواب دے سکیں گے۔
انھوں نے کہا تھا:” میں نے صدر بش کو اپنے ان خیالات سے آگاہ کردیا ہے اور انھوں نے جواب میں یہ اشارہ دیا ہے کہ ان صفحات کا فی الوقت اجراء (دہشت گردی کے خلاف)کارروائیوں اور جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
شہزادہ سعود الفیصل نے مزید کہا تھا:” جو کوئی یہ یقین رکھتا ہے کہ موجودہ صدر نائن الیون حملوں میں ملوث کسی بھی شخص کی پردہ پوشی کریں گے تو وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے یا اس کے اپنے کوئی مذموم مقاصد ہیں”۔ان کا کہنا تھا کہ ان صفحات کو کلاسفائیڈ رکھ کر ان کے ملک کو جان بوجھ کر حملوں میں ماخوذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا:”یہ تو کسی بھی طرح درست نہیں ہے کہ 28 خالی صفحات کو ایک ایسے ملک کو قصور وار قرار دینے کے لیے متبادل شہادت خیال کیا جارہا ہے جو گذشتہ 60 سال سے زیادہ عرصے سے امریکا کا سچا دوست اور شراکت دار ہے۔
ان کے جانشین وزیر خارجہ عادل الجبیر نے سعودی عرب سے متعلق ان 28 صفحات کے اجراء کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ اب ختم ہو جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ شہزادہ سعود الفیصل 1975ء سے 2015 تک سعودی عرب کے وزیر خارجہ رہے تھے۔وہ گذشتہ کئی سال سے مختلف امراض کا شکار تھے اور اسی سال طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔وہ دنیا میں کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصہ وزیر خارجہ رہے تھے۔