پاکستان میں ڈیڑھ ارب ڈالر کیا آئے کہ گلی گلی میں شور مچ گیا کہ کہاں سے آئے ہیں یہ ڈالر ، کِس نے دیئے ہیں یہ ڈالر ، کیوں دیئے ہیں یہ ڈالر ؟۔وزیرِ خزانہ جنابِ اسحاق ڈار سے شرطیں باندھنے والے لال حویلی کے شیخ رشید احمد نے پارلیمنٹ کی جان چھوڑنے کے لیے اب نئی شرط باندھتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ وزیرِ خزانہ پہلے بارہ اشیاء کی قیمتیں کم کریں پھر مستعفی ہوں گا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ شرائط پوری کر بھی دی جائیں تو پھر بھی شیخ صاحب پارلیمنٹ سے چمٹے رہیں گے کیونکہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی ۔تحریکِ انصاف کی مہربانی سے شیخ صاحب کی ہنڈیا میں ایک بار آیا ہوا اُبال بار بار نہیں آئے گا۔ویسے بھی شیخ صاحب کا ”اِٹ کھڑّکا ‘ ‘جاری ہی رہتا ہے۔وہ جو بات بھی کرتے ہیں ، پوری قطعت کے ساتھ اور شرط باندھ کر کرتے ہیں۔اُنہیں شرطیں باندھنے کا اتنا شوق ہے کہ اگر اُنہیں کوئی اور نہ ملے تو وہ لال حویلی کے نیچے سموسے پکوڑے بیچنے والے کے ساتھ بھی شرط باندھ لیتے ہیں۔ دروغ بَر گردنِ راوی ، ہمیشہ ہارتے مگرکبھی شرط پوری نہیں کرتے۔
شاید اسی لیے وہ پرویز مشرف کے دل کے بہت قریب تھے کیونکہ مشرف صاحب کو بھی ”مُکر جانے” کی پرانی عادت ہے۔ لیکن اچھے بھلے سیانے سیّد خورشید شاہ صاحب کو پتہ نہیں کیا ہوا جنہیں دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی نظر آنے لگی۔اب اُن کے ریکارڈ کی سوئی ایک ہی جگہ پر اٹک گئی ہے کہ کیوں ، کیسے اور کہاں سے آئے ہیں یہ ڈالر؟۔ویسے قصور خورشید شاہ صاحب کا بھی نہیں کیونکہ اُن کی تو بلاول زرداری نے ”مَت” مار کے رکھ دی ہے ۔شاہ صاحب جو بھی بیان دیتے ہیں بلاول زرداری ٹویٹر کا سہارا لے کر اُس سے اُلٹ بیان داغ دیتے ہیں جس پر شاہ صاحب سوائے تلملانے کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
منجھے ہوئے سیاست دان سیّد خورشید شاہ صاحب نے طالبان کے معاملے میں گیند جب بھی حکومت کے کورٹ میں پھینکنے کی کوشش کی بلاول زرداری نے اُسے درمیان ہی سے اُچک لیا ۔شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو جلد کریں اور نتیجہ خیز کریں جبکہ بلاول مار دھاڑ سے بھرپور فلم چلانے کے خواہش مند ہیں ۔انوکھا لاڈلا بلاول زرداری ”کھیلن کو” چاند مانگتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس ٹوٹا ہوا تارا بھی نہیں ۔اُدھر جنابِ آصف زرداری بھی خاموشی کی ”بُکل” مار کر دبئی سدھار گئے۔
Ishaq Dar
اگر وہ ملک میں موجود ہوتے تو شاید پیپلز پارٹی میں بھی تھوڑی بہت ہلچل ہوتی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آصف زرداری صاحب نے سیاست سے پکّی پکّی ”ریٹائرمنٹ” لے لی ہو ۔آمدم بَر سرِ مطلب ، اسحاق ڈار صاحب نے پہلے تو یہ بتلانے سے ہی صاف انکار کر دیا کہ ڈالر کہاں سے آئے ہیں لیکن جب ہر کسی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نواز حکومت نے قومی مفادات کا سودا کر لیا ہے تو ڈار صاحب نے بھی اقرار کر لیا کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے یہ غیر مشروط ” تحفہ” دیا ہے ۔ یہ تحفے والی بات شاہ صاحب کو ہضم نہیں ہوئی کیونکہ اُن کے دَورِ حکومت میں تو کوئی اُن کو قرضہ تک دینے کو تیار نہیں ہوتاتھا، بھلا تحفہ کون دیتا اور وہ بھی ڈیڑھ ارب ڈالر کا؟۔شایداسی بنا پر تجزیہ نگاروں نے بھی دور کی کوڑیاں لاتے ہوئے اِس ”تحفے ” کی کَڑیاں شام کے باغیوں سے ملا نا شروع کردیں کیونکہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب شام کے صدربشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔
ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے بھی ایسی خبریں کسی ”تحفے” سے کم نہیں ہوتیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر سبھی اینکراپنی اپنی دوکانیں سجا کر بیٹھ گئے کیونکہ سوال ”ریٹنگ” کا تھا۔وہ تواللہ بھلا کرے وزیرِ اعظم کے خارجہ امور کے مشیر جنابِ سرتاج عزیز کا جنہوںنے میڈیا کے شور اور خورشیدشاہ صاحب کی بیقراری کو بھانپتے ہوئے با لآخر یہ بتلا ہی دیا کہ سعودی عرب کی امداد مکمل طور پر غیر مشروط ہے اور پاکستان شام کے باغیوں کی مدد کے لیے اسلحہ بھیج رہا ہے نہ جنگجو۔ یہ امداد پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کی مَد میں دی گئی ہے اور اُسی کے لیے استعمال ہو گی۔
اُدھر ہمارے اسحاق ڈار صاحب بھی کچھ زیادہ ہی” مخولیے ”ہو گئے ہیں۔موجودہ صورتِ حال سے وہ بھرپور لطف اندوز ہو رہے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا بھی کسی ”بریکنگ نیوز”کے لیے اُن کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے۔اب ڈار صاحب نے محض شیخ رشید صاحب کو ”چڑانے” کے لیے”چَسکے” لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ڈیڑھ ارب تو کیا پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈمیں تو پچیس ارب ڈالر آنے والے ہیں ۔ شیخ رشید صاحب یقیناََ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہونگے کہ اگر اُن کی ”بارہ مصالحوں والی” بارہ شرائط بھی پوری ہو گئیں تو پھر پارلیمنٹ سے چمٹے رہنے کے لیے کون سا بہانہ باقی رہ جائے گا؟ ۔ اتنا تو ہمیں بھی پتہ ہے کہ متحدہ عرب امارات سے سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے والے ہیں لیکن 25 ارب ڈالر؟ ۔اگر یہ سچ ہے تو پھر قوم کو خوشیاں منانی چاہییں کہ اُس کے بھی دن پھرنے والے ہیں۔
موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات بلین ڈالر تھے جو آمدہ اطلاعات کے مطابق جون 2014ء تک 16 بلین ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے جس سے ڈالر مزید سستا ہو گا اور درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں 10 سے 15فیصد تک کمی آئے گی ۔حکومت 500 ملین ڈالر کے یورو بانڈز بھی جاری کر رہی ہے اور G3 , G4 لائسنس کی نیلامی سے بھی ایک بلین ڈالر حاصل ہونگے۔گویا قوم کے لیے راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے ۔وزیرِ خزانہ صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے تجزیوں کے مطابق تو 2050ء تک پاکستان دُنیا کی اٹھارھویں بڑی معیشت بن جائے گا لیکن اگر اُن کی حکومت قائم رہی تو وہ زیادہ سے زیادہ 2025ء تک پاکستان کو دُنیا کی اٹھارھویں بڑی معیشت بنا کے دَم لیں گے ۔گویا محض گیارہ سال بعد ہم کئی یورپی ممالک سے بھی آگے نکل جائیں گے ۔ اسحاق ڈار صاحب کایہ دعویٰ ایسا ہے کہ عقل اسے تسلیم کرنے سے عاری ہے۔
ویسے بھی حکمرانوں کی باتوں پر یقین کرنے والے احمق ہی ہوتے ہیں لیکن ہمیں چونکہ اِس ”حماقت” میں بھی سرور آنے لگا ہے اِس لیے ہم یہ سوچتے ہوئے جنابِ اسحاق ڈار کے اِس دعوے پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں کہ انہوں نے پہلے جو کہا ، وہ کرکے دکھایا ۔بچپن سے سُنتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان اتنا امیرملک ہے کہ عنقریب بیرونی ممالک سے لوگ پاکستان میںنوکریاں ڈھونڈتے پھریں گے لیکن سَپنا تو پھر سَپنا ہوتا ہے ، تا حال تو ہم ہی دیارِ غیر میں حصولِ رزق کی خاطر دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ عقل تو اب بھی یہی کہتی ہے کہ کچھ نہیں بدلے گا لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے ”عقلِ عیار” کو الماری میں بند کرکے تالا لگا دیا ہے جس کی بنا پر اب ہمیں بھی یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے سَپنے سچ ہونے کا موسم قریب آن لگا ہے۔ قوم کی دُعائیں موجودہ حکومت اور اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ ہیں اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ”لگے رہو ڈار بھائی۔