تحریر : علی عبداللہ اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ کافی دنوں سے محسوس کیا جا رہا تھا۔ سعودی حکومت کی جانب سے علماء اور مذہبی سکالرز کی اچانک بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے غالب امکان تھا کہ سعودی حکومت کچھ نیا کرنے چلی ہے اور کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچنے کے لیے ایسے تمام علماء کو حراست میں لینا ضروری سمجھتی ہے جو حکومت مخالف رائے دے سکتے ہوں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاض میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ملک میں معتدل اسلام لانے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سعودی عرب 1979 سے پہلے ایسا نہیں تھا جیسا آج ہے لیکن اب یہاں مذہبی شدت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں اور اسے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گاـ اس کے علاوہ ای ای سی گروپ جس کے سر کنگ عبداللہ اکنامک سٹی بھی تعمیرکرنے کا سہرا ہے کے چیف ایگزیکٹو نے اس سال کے آخر پر ایک جاز میوزک کنسرٹ کا بھی اعلان کر دیا ہے جس میں غیر ملکی فنکاروں کی شرکت متوقع ہے ۔ اس سے پہلے سعودی قومی چینل پر مصری گلوکارہ ام کلثوم کا کنسرٹ بھی نشر کیا جا چکا ہے۔
اس کانفرنس ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ صوفیہ نامی روبوٹ کو سعودی شہریت سے نوازا گیا ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں قریبی مرد رشتے دار کے بغیر عورت پاسپورٹ نہیں لے سکتی ،غیر ملکی سفر نہیں کر سکتی اور گھر سے باہر کسی قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر نہیں جا سکتی، وہاں کسی خاتون کے نام پر بنائے گئے روبوٹ کو شہریت دے دینا کچھ عجیب فیصلہ ہے ۔ ٹویٹر پر اس روبوٹ کو کافی تنقید کا سامنا ہے بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ عبایہ اور سکارف لینے والے معاشرے میں بے پردہ صوفیہ روبوٹ خواتین کی بے عزتی کے مترادف ہے ۔ مزید کفالہ سسٹم کی وجہ سے لوگ پوری زندگی عرب میں گذار دیتے ہیں مگر شہریت نہیں حاصل کر پاتے لیکن صوفیہ کو اتنی جلدی شہریت دے دینا حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔
معتدل اسلام کے نام پر جہاں اہل مغرب اور اس کے حواریوں میں خوشی کی لہر دوڑی ہے وہیں دیگر مسلم ممالک میں نئے خدشات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے ۔ ایسا معتدل اسلام جو آزادی رائے کو مقدم نہیں رکھتا اور کسی بھی حکمران مخالف رائے پر جیل بھیجے جانے کا سبب بنتا ہے ۔ وہ معتدل اسلام جس کی بنیاد پر سلمان العودہ اور القرنی سمیت کئی دیگر ایسے سکالرز گرفتار کیے گئے جن پر کسی قسم کی مذہبی شدت پسندی کا الزام نہیں تھا ۔ العودہ اور القرنی ان سعودی سکالرز میں سے ہیں جنہوں نے 1991 کی کویت جنگ میں امریکی دستوں کی عرب سرزمین پر موجودگی کی مخالفت کی تھی ۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سیاسی بنا پر گرفتاریاں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ محمد بن سلمان قانون کی حکمرانی اور آزادی رائے کے بارے سابقہ سعودی طرز کو بدلنے میں ابھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔
مذہبی پولیس کے اختیارات کا محدود ہونا،موزک کنسرٹس کا قومی چینل پر نشر ہونااور کشادہ اسلام کا نعرہ نجانے مستقبل میں کیا رنگ لائے گا یہ ابھی واضح نہیں ہے لیکن کرہ ارض کے مقدس ترین مقامات کی حامل اس سرزمین کو مغربیت کی خوشی کے لیے استعمال کرنا اور اعتدال پسندی کے نام پر اپنی تاریخی ثقافت و روایات کو بھول کر جدیدیت کا نعرہ لگانا مستقبل میں سعودی عرب کو نئی مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے ۔ ترقی کرنا اور باقی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونا موجودہ دور میں لازم ہے لیکن ہم آہنگی کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ غیروں کی ثقافت اپنا کر اپنی روایات کو پس پشت رکھ دیا جائے۔ اب شہزادہ محمد بن سلمان کو محتاط فیصلے کرنا ہوں گے جس سے ملک کی ساکھ اور اسلامی تشخص برقرار رہے۔