سعودی عرب کے وزیر اطلاعات ڈاکٹر عواد بن صالح العواد پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ مکمل کرکے وطن واپس روانہ ہوگئے۔ اپنے دورہ پاکستان کے دوران انہوں نے وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر’ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی’ وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین اور وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی صاحبزادہ نور الحق قادری سمیت دیگر شخصیات سے اہم ملاقاتیں کیں۔سعودی وزیر اطلاعات نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے منصب سنبھالنے پر انہیں مبارکباد دی اور سعودی حکام کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایااور بھرپور تعاون کا عندیہ دیا جس پر وزیر اعظم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ داری کا خیر مقدم کریں گے۔ قدرتی وسائل، تیل، زراعت اور دیگر شعبوں میں سعودی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات ہیں۔سعودی وزیر اطلاعات ڈاکٹر عواد بن صالح العواد نے تین روزہ دورہ کے بعد واپسی پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب منفرد اور خصوصی تعلقات سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ان کے دورے سے دونوں بردار ملکوں کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے’ نہ صرف دونوں ملکوں کی حکومتیں بلکہ عوام بھی پرتپاک تعلقات کے حامل ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب لازوال دوستی کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور برادر اسلامی ملک نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید و حمایت کی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی وسیع پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ئ کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ئ میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔2005ئ میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے۔
سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے تیل کے ذخائرکی دولت سے نواز رکھا ہے اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے جیسے اقدامات کر کے سعودی عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کو حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار طے کرسکیں۔ سعودی عرب کی مالی امداد سے دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔سعودی عرب میں مختلف اسلامی ممالک سے جو طلباء تعلیم کی غرض سے آتے ہیں انہیں نہ صرف مفت کتابیں و رہائش فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں 800سعودی ریال وظیفہ بھی دیا جاتا ہے حج کیلئے لاکھوں مردوخواتین میں ان کی مادری زبانوں میں قرآن پاک اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں کتاب و سنت کی دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں سعودی عرب کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔
تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر سعودی حکومت بے پناہ خرچ کرتی ہے۔سعودی عرب کی خارجہ پالیسی جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، اقتصادی، امن و سلامتی، سیاسی اصولوں اور حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی تشکیل میں سب سے اچھی ہمسائیگی کی پالیسی، دوسرے ملکوں کے داخلی امور میں عدم مداخلت، خلیجی ممالک اور جزیرہ عرب کے ساتھ تعلقات کو مستحکم تر کرنا، عرب اور اسلامی ملکوں کے مفاد عامہ کی خاطر ان سے تعلقات کو مضبوط کرنا، ان کے مسائل کی وکالت کرنا، غیر وابستگی کی پالیسی اپنانا، دوست ممالک کے ساتھ تعاون کے تعلقات قائم کرنا اور عالمی و علاقائی تنظیموں میں مئوثر کردار ادا کرنا شامل ہے۔ سرزمین حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا دینی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ مسجد الحرام، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور حج کے مقدس مقامات کے خادم ہونے پر سعودی حکام کو یقینی طور پر فخر محسوس ہوتا ہے کیونکہ زائرین عمرہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا واقعتا ایک اعزاز ہے۔ سعودی عرب کے پاکستان سے تعلقات ہمیشہ بہت مضبوط و مستحکم رہے ہیں۔
کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ان رشتوں میں کوئی کمزوری نہیں آئی بلکہ دن بدن ان میںاضافہ ہی ہوا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثارو قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔اب پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت آئی ہے تو سعودی قیادت کی جانب سے پاکستان کو قرضوں کی دلدل سے نکالنے اور دیگر اہم امور پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
سعودی وزیر اطلاعات نے اپنے حالیہ دورہ کے دوران اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی نئی منتخب حکومت کے دور میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مزید مستحکم اور مضبوط ہوں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے بھی کہا کہ سعودی وزیر اطلاعات کے دورہ پاکستان سے دونوں اسلامی برادر ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو مزید استحکام ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک تعاون کو مزید فروغ دینے پر رضامند ہیں’ پاکستان میں نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی انتظامیہ کو اس کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔سعودی وزیر اطلاعات کی پاکستانی حکام سے ہونیو الی ملاقاتوں میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی بھی موجود رہے جو پاکستان میں سفیر تعینات ہونے کے بعد بہت متحرک کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنی سفارتی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانا جانتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات میں اور زیادہ پختگی آئے گی اور یہ مل کر اندرونی و بیرونی سازشوں کا توڑ کرنے میں ان شاء اللہ کامیاب ہوں گے۔