اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اسلام آباد کی طرف سے امریکا کی درخواست پر کی جانے والی سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی کوششوں میں اب تک کی پیش رفت سست رفتار رہی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی گزشتہ برس اکتوبر میں تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ لی گئی ایک تصویر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی گزشتہ برس اکتوبر میں تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ لی گئی ایک تصویر
دبئی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ بات عمران خان نے پیر تین اگست کو عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔ الجزیرہ نے اس انٹرویو کے کچھ حصے تین اگست کو نشر بھی کر دیے۔ مکمل انٹرویو بدھ پانچ اگست کو نشر کیا جائے گا۔
پاکستانی وزیر اعظم کو خلیج کے خطے کی دو طاقت ور لیکن حریف ریاستوں کے طور پر سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی درخواست امریکا نے کی تھی۔ واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کے بعد ہی عمران خان نے گزشتہ برس اکتوبر میں تہران اور ریاض کے دورے کیے تھے۔
ان دوروں کا مقصد شیعہ اکثریتی آبادی والے اسلامی ملک ایران اور وہابی مسلک کی پیروکار قدامت پسند سعودی بادشاہت کے مابین بات چیت میں سہولت کاری تھا۔
عمران خان نے یہ ثالثی کوششیں اس وقت کی تھیں، جب خلیج فارس کے علاقے میں تیل کی صنعت سے جڑے مفادات پر وہ حملے کیے گئے تھے، جن کے لیے امریکا نے الزام ایران پر عائد کیا تھا۔ ان حملوں کا نتیجہ ایران اور سعودی عرب کے مابین شدید کشیدگی کی صورت میں بھی نکلا تھا۔
اس پس منظر میں عمران خان نے الجزیرہ ٹیلی وژن کے ساتھ انٹرویو میں کہا، ”ہماری سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی کوششیں رکی نہیں ہیں۔ ہمیں کامیابی حاصل ہو رہی ہے، لیکن سست رفتاری سے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم نے قطر کے اس نشریاتی ادارے کو بتایا، ”ہم نے ایران اور سعودی عرب کے مابین فوجی تصادم کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کی اور ہماری یہ کوشش کامیاب رہی۔‘‘
ایران اپنے ہاں اسلامی انقلاب کے بعد سے خطے میں سعودی عرب کا بڑا حریف ملک ہے۔ امریکا کے ساتھ تہران کے تعلقات اُس وقت دوبارہ شدید کشیدہ ہو گئے تھے، جب صدر ٹرمپ نے تہران کے ساتھ اس کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے 2018ء میں واشنگٹن کے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔