سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی جیلوں میں زیر حراست انسانی حقوق کے کارکنوں اور حکومت کے ناقدین کے ان کے اہل خانہ کے ساتھ رابطے محدود کیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایسی مسلسل خلاف ورزیاں ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے مسئلہ بن سکتی ہیں۔
سعودی حکام حکومت کے ناقدین کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ سرکاری موقف سے اختلاف رکھنے والوں کو ہدف بنانے کے عمل میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے۔ کئی متاثرہ خاندانوں کا یہ الزام بھی ہے کہ ان کے زیر حراست ارکان کے ساتھ ان کے رابطے محدود کیے جا رہے ہیں۔
ملک کے سابق انٹیلیجنس چیف سعد الجباری کے خاندان کے ایک اور رکن کو اس ہفتے گرفتار کر لیا گیا۔ الجباری کے بھائی اور دو بیٹوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سابق انٹیلیجنس چیف نے اسی ماہ امریکا میں ایک رپورٹ درج کرائی تھی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انہیں قتل کروا دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کے بیٹے خالد الجباری نے بدھ کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں دعوی کیا تھا کہ ان کے خاندان کے ایک اور رکن کی گرفتاری دراصل انہیں ڈرانے دھمکانے کے لیے ایک ہتھکنڈا ہے۔
اس کے علاوہ کئی دیگر زیر حراست ناقدین کے اہل خانہ نے بھی یہ شکایت کی ہے کہ حالیہ مہینوں میں ان کے اپنے اپنے خاندانوں سے رابطے کم ہو گئے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی لجین الہذلول کی بہن کے مطابق وہ اور ان کے دیگر اہل خانہ کافی فکر مند ہیں کیونکہ ان کی اپنی ہمشیرہ الہذلول سے جون کی نو تاریخ سے اب تک بالکل کوئی بات نہیں ہو سکی۔
لینا الہذلول نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ”یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر ان (حکومت) کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں، تو حکام زیر حراست افراد کے ان کے خاندانوں سے رابطے محدود کیوں کرتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب پہلی مرتبہ حکام کی طرف سے لجین الہذلول سے رابطے روک دیے گئے تھے، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اب بھی شاید ایسا ہی ہو رہا ہو۔
شہزادی بسما بنت سعود اور سابق ولی عہد محمد بن نائف کے اہل خانہ کو بھی ان سے رابطہ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ بنت سعود نے رواں سال اپریل میں اپنی رہائی کے لیے محمد بن سلمان سے اپیل کی تھی اور اس کے بعد سے ان کا کچھ اتا پتا نہیں۔ امریکا کے بلوم برگ ٹی وی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اصلاحات پسند معلم سلمان العودہ، جنہیں تین برس قبل گرفتار کیا گیا تھا اور جنہیں سزائے موت کا سامنا ہے، کی بھی کوئی خبر نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے ان کے بارے میں جاننے کے لیے سعودی وزارت مواصلات سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
ماہرین اس بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں کہ آیا ایسے متنازعہ اقدامات طاقت ور سعودی ولی عہد کے لیے مستقبل میں مسئلہ بن سکتے ہیں۔ تنقیدی آوازوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات ریاض حکومت کے قریب ترین اتحادی ملک امریکا کے ساتھ باہمی تعلقات میں خرابی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن پچھلے سال ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ ریاض کو اسلحے کی فروخت معطل بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیاں بائیڈن کے موقف کو سخت تر بنا سکتی ہیں۔
دریں اثنا امریکا میں چند سینیٹرز بھی الجباری کے اہل خانہ کی رہائی کے لیے صد ڈونلڈ ٹرمپ پر دبا ڈال رہے ہیں۔ سابق سعودی انٹیلیجنس چیف سعد الجباری ایک عرصے تک امریکی خفیہ اداروں کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں زیر حراست شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز بن سلمان کی رہائی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
جرمنی نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے پراسرار قتل کے بعد سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت روک دی تھی۔ اس فیصلے پر رواں سال دسمبر میں نظر ثانی متوقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین سمجھتے ہیں جرمنی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی معاملات میں سعودی عرب پر دبا ڈال سکتا ہے۔
یورپی پارلیمان کی رکن اور عرب ممالک کے ساتھ روابط پر نگاہ رکھنے والے گروپ (DARP) کی ایک رکن ایوا کائلی کا کہنا ہے، ”اگر یہ (حکمران) شاہی خاندان، یعنی اپنے ہی خاندان کے ارکان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں، تو سوچیں دوسروں کے ساتھ کیا ہو رہا ہو گا۔
برطانیہ میں قائم چیٹم ہاس انسٹیٹیوٹ سے وابستہ نیل کوئیلیم کے بقول سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ایسے اقدامات سے بچنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ نیل کوئیلیم کے بقول اگر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں رک جائیں اور زیر حراست سیاسی قیدیوں کی رہائی عمل میں آ جائے، تو جلد ہی لوگ سب کچھ بھول جائیں گے اور سعودی ولی عہد کو اس کا سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے فائدہ ہی ہو گا۔