تحریر: حبیب اللہ سلفی سعودی عرب کے 85ویں قومی دن کی تقریب اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں انتہائی سادگی سے منعقدکی گئی ۔ سعودی ایمبیسی کی دعوت پر میں پچھلے سال تقریب میں شریک ہوا تو سعودی ثقافت کو قریب سے دیکھنے کو ملاتاہم امسال سانحہ منیٰ کے باعث ماحول سوگوار رہا اور کسی قسم کے ثقافتی کلچر کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
معزز سعودی سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی اور سابق سفیر شیخ جاسم الخالدی مقامی ہوٹل میں ہال کے مرکزی دروازہ پر موجود تھے جو ہر آنے والے سے ہاتھ ملا کر ان کا استقبال کرتے رہے ۔بعد ازاں دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجائے گئے ‘ سعودی سفیراور وفاقی وزیر احسن اقبال نے چند منٹ کی گفتگوکی اور پھر مہمانان گرامی کی آپس میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔تقریب میں مولانا سمیع الحق، سراج الحق،سینیٹر پروفیسر ساجد میر،چوہدری پرویز الہٰی، مشاہد حسین سیداور پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی سمیت حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران ، مذہبی جماعتوں کے قائدین ، سینئر سفارت کاروں، تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ افسران، نامور صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکرز نے شرکت کی۔
ماضی میں یوم الوطنی کی تقاریب 23ستمبر کو سعودی ایمبیسی میں ہوتی رہی ہیں تاہم امسال عید الاضحی کی انہی دنوںمیں آمد اور منیٰ میں پیش آنے والے سانحہ کی وجہ سے اس میں تاخیر کی گئی اور اس کے انعقاد کیلئے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔ تقریب میں شریک افراد کی تعداد بھی پچھلے سال سے بہت کم تھی ۔ سبھی مہمان سعودی سفیراور دیگر آفیشلز سے ملاقاتیں کر کے منیٰ میں شہادتوں کے سانحہ پر ان سے تعزیت کرتے رہے جبکہ سعودی ذمہ داران نے بھی بعض دوسرے ملکوں کی طرح اس سانحہ کے حوالہ سے کسی قسم کی سیاست نہیں کی اور شرکاء کواصل حقائق اور اب تک کی جانے والی تحقیقات سے آگاہ کرتے رہے۔
یوں اس تقریب میں سانحہ منیٰ کا موضو ع غالب رہا۔ تقریب کے دوران میری ملاقات جماعةالدعوة شعبہ سیاسی امور اور امورخارجہ کے نگران پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی سے ہوئی جو سعودی ذمہ داران سے ملاقاتوں میں خاصے سرگرم اور بے تکلف نظر آئے۔ تحفظ حرمین شریفین مہم کے دوران عربی زبان کئے گئے ان کے ولولہ انگیز خطابات سے متاثر عرب میڈیا سے وابستہ صحافی بھی خصوصی طور پر ان سے ملاقاتیں اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے دکھائی دیے بہرحال میں نے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے سانحہ منیٰ ، شام و دیگر عرب ممالک کو درپیش مسائل اور حالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ منیٰ میں شہادتوں سے متعلق حافظ عبدالرحمن مکی کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس میں سعودی انتظامیہ کی کسی قسم کی غفلت نہیں ہے۔
Mina Incident
امسال گذشتہ برسوں کی نسبت جتنے وسیع پیمانے پرانتظامات کئے گئے اس کی ساری دنیا گواہ ہے اور اگر حجاج کرام کے کسی ایک گروہ کی جانب سے سعودی حکومت کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرتے ہوئے ون وے راستہ کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں یہ سانحہ ہوا ہے تو اس کا ذمہ دارکسی صورت سعودی عرب کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے ۔ اب تو ایرانی وزیر صحت حسن ہاشمی نے بھی کلمہ حق کہتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سانحہ منیٰ المناک ضرور ہے تاہم سعودی عرب کو اس کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔اپنے سعودی ہم منصب انجینئر خالد بن عبدالعزیزسے ملاقات کے دوران انہوںنے سعودی حکومت کی جانب سے کئے گئے ہنگامی اقدامات کو بھی سراہاہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایرانی وزیر صحت کے اس اعتراف کے بعد اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر سعودی عرب کے خلاف کسی قسم کی بیان بازی سے کام نہیں لینا چاہیے اور سعودی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے مرتب کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔ سعودی عرب کے قومی دن کی یہ تقریب لازوال پاک سعودی تعلقات کی آئینہ دار تھی۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اس تقریب کاانعقاد ہی پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہے۔
یوم الوطنی کی پروقارتقریب عبداللہ مرزوق الزھرانی کی طرف سے سجائی گئی تھی۔وہ کئی برسوں تک سفارتخانہ میں ڈپٹی چیف آف مشن رہے اور اب سعودی سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس شخصیت کے طور پر ہے۔جن لوگوںکو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سفیر اور سعودی عرب جیسے اسلامی ملک کے نمائندہ میں ہونی چاہئیں۔ ان کی شخصیت میں تصنع اور بناوٹ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی سفیر کے طور پر پاکستان میں ان کی تعیناتی ایسے وقت میں ہوئی جب برادر اسلامی ملک یمن کو بغاوت کا مسئلہ درپیش ہے اور سعودی سرحدوں پر حملے کر کے دشمن غیر ملکی ایجنڈوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ان حالات میں سعودی عرب کو یقینی طور پر پاکستان کی مددکی ضرورت ہے۔ بعض دشمن قوتوں کی خواہش تھی کہ پاکستان میں اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ تناظر میں پیش کر کے عوام الناس کا ذہن خراب کیا جائے تاکہ پاکستان برادر اسلامی ملک کے ساتھ کھل کر تعاون کا فیصلہ نہ کر سکے۔اسلئے اس حوالہ سے ایسی سازشیں ناکام بنانے کیلئے سفارتی سطح پر بھرپور کردار اد ا کرنے کی ضرورت تھی تاہم میں سمجھتا ہوں کہ سعودی سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی کی جب سے تعیناتی ہوئی ہے ‘ وہ اپنے تجربہ و معاملہ فہمی کی بنیاد پر پاک سعودی دوستی کو مزید مستحکم کرنے اور بے مثال بنانے میں یقینی طو رپر اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو واضح طور پر نظربھی آ رہا ہے۔
سعودی عرب مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے اور پاک سعودی تعلقات کے درمیان محبت اور اخوت کے جو لازوال رشتے قائم ہیں انہیں پوری دنیا میں نا صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ دوستی کے اس پر خلوص رشتہ کی عالمی دنیا میں مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دونوںملک یک جان دوقالب ہیں جس کا واضح اظہار ہر اس موقع پر دیکھنے میں آیا جب پاکستان کو زلزلہ، سیلاب یا کسی اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی وہ برادراسلامی ملک ہے جو ہمیشہ پاکستانیوں کی مدد کیلئے پہنچااور ساتھ نبھانے کا حق ادا کیا ہے۔ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ بھرپور کوششوں کا سلسلہ بی جاری رکھتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں خاص طور پر نائن الیون کے بعد پالیسیوں میں تغیرات کے باعث بعض مرتبہ یہ چیزیں تعلقات میں اتار چڑھائو کا باعث بنتی رہی ہیں مگراس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر جو حالات بن رہے ہیں یہ باتیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں کہ امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل نظریاتی بنیادوں پر معرض وجود میں آنیو الے دو ملکوں پاکستان اور سعودی عرب کو کسی طور مضبوط و مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے اور انہیں ہر صورت عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ خوفناک سازشیں اور منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی تعلقات بہت زیادہ ضروری ہیں۔
سعودی عرب پاکستان کی امداد سے کسی طور پیچھے نہیں رہا تو پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ دفاعی لحاظ سے سعودی عرب سے ہر ممکن تعاون کرے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کی کوششوں میں حصہ لے۔پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ عالمی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اپنا مشترکہ دفاعی نظام اور ڈالر اور یورو کے چکر سے نکل کر اپنی مشترکہ کرنسی تشکیل دیں۔ مسلمان ملکوں کو اپنی الگ اقوام متحدہ بھی بنانی چاہیے۔ اس نوعیت کے جرأتمندانہ اقدامات اٹھا کر ہی امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین برادرانہ تعلقات ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رہیںاور اللہ تعالیٰ ان محبتوںمیں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین۔