تحریر: پروفیسر مستقیمہ بیگم یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب کوئی جمہوری مملکت نہیں ہے۔یہاں کا نظام موجودہ زمانے کی ایک مضبوط شہنشاہیت کے تحت کام کرتا ہے اور جہاں پر قرآن و سنت کا نظام رائج ہے۔۔ جس کے بانی شاہ عبدالعزیز تھے۔
شاہ عبدالعزیز کے بعد ان کے بڑے بیٹے شاہ سعود بن عبدالعیز، مملکتِ سعودی عرب کے حکمران بنے ان کو معزول کر کے شاہ فیصل بن عبدلعزیز مملکت اسلامیہ السعودیہ کے شاہ نبے ۔شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی شہادت(جو ان کے بھتےجے کے ہاتھوں ہوئی ) کے بعد سعودی اقتدار کی باگ ڈور ان کے بھائی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے حرمین الشریف کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔شاہ فہد بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد مملکتِ سعودی عربیہ کے حکمران اورشاہی شورہ کے فیصلے کے بعد زمامِ اقتدارشاہ عبدلعزیز کے چھوٹے بیٹے شاہ عبداللہ کے ہاتھوں میں آگئی۔مملکتِ سعودیہ کا نظام بہتر انداز میں شاہ سعود کے خاندان کے لوگوں کی مشاورت سے احسن طریقے پر چلتاچلا آرہا ہے۔
خدا سعودی عرب کو اس کے دشمنوں کی نظرِ بد سے بچائے۔جواس مملکت کی ترقی و خوش حالی سے اور سعودی خاندان اور اس کے نامزد کردہ حکمرانوںسے ہمیشہ سے مخاصمت رکھتے ہیں ۔وہ ہی اس مملکت اور اس کے منصفانہ نظام حکومت کوتلپٹ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اسوقت سعودی عرب کا نظام چلانے کے لئے ایک سو پچاس (150) ارکان پر مشتمل ایک آیئن ساز اسمبلی(مجلسِ شوریٰ) موجود ہے جن کی نامزدگی میں شاہ کا اہم کردار ہوتا ہے اور تمام ارکان شاہی خاندان سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔اس اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار اس وجہ سے نہیں ہے کہ مملکتِ سعودیہ قرآن پاک کو اپنا آئین مانتی ہے۔جو شاہ کو ہر معاملے اور ہر موڑ پر اپنے بہترین مشوروں سے نوازتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی سیاست پر شاہی خاندان کا سب سے زیادہ اثر ہے۔حکومت کا اےک اور اہم حصہ علماءکی کونسل ہے۔ جس کو سعودی حکومت اور معاشرے میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
اکثر علماءکی کونسل کے فیصلے شاہ کو ماننے پڑجاتے ہیں۔ اس وقت سعودی شہزاد گان کی تعداد لگ بھگ سات سو (700)بتائی جاتی ہے ۔شاہ عبد العزیز کے بیٹوں میں دو سو(200)افراد طاقتور مانے جاتے ہیں۔سعودی اقتدار کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تمام اہم عہدے ہمیشہ رائل فیملی کے پاس ہی رہتے ہی ہیں۔جن میں تیرا (13)سعودی عرب کے مختلف صوبوں کے گورنرز بھی شامل ہیںسعودی خاندان کے لوگوں کو بھاری تنخواہوں پر ملازمتیں دی جاتی ہیں۔موجودہ شاہ،سلمان بن عبدالعزیز 1962تا 2011،تک ریاض کے گورنر رہ چکے ہیں۔موجودہ دور میں سعودی عرب کے سب سے زیادہ طاقتور سُدیری خاندان کے لوگ سمجھے جا رہے ہیں۔
Saud Al Faisal
موجودہ دور میں یمن کے حالات سعودی باد شاہت کی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں۔سعودی عرب کے سابقہ شاہ، شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعدسعودی سیاست میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے شہزادہ مکرن کو جن کو اس سے قبل سعودی عرب کا ولی عہد ڈکلیئر کیا گیا تھا اوران کے متعلق یہ تاثر بھی موجود ہے کہ وہ حوثیوں پر ہوائی حملوں کے حق میں نہیں تھے۔ان کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد کے عہدے سے سبکدوش کرتے ہوئے ان کی جگہ اپنے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیزکو ولی عہد بنا دیا ہے۔یہ امریکہ کے تعلیمی ادروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کئے ہوئے ہیں انہیں جاسوسی ادروں کی تربیت بھی حاصل رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے قانون میں حکمران وقت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ولی عہدہ کا تقرر کر سکتے ہیں۔اس سے قبل موجودہ ولیعہد سعودی عرب کے وزیرِداخلہ کے عہدے پر متمکن تھے۔ ایک اور بڑی پبدیلی یہ آئی کہ شاہ نے اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو نائب ولی عہد مقرر کر دیا ہے۔
جو سعودی عرب کے وزیر دفاع تھے۔سعود الفیصل کے متعلق خبر یں ہیں کہ انہوںنے اپنی طبیعت کی ناسازی کی بنا پر وہ اپنے وزارت خارجہ کے قلمدان سے مستعفی ہوکر بظاہر سعودی سیاست دستبردار ہوگئے ہیں۔ان کی جگہ سعودی عرب کے امریکہ میں سفیر عادل الجبیر کو شاہی فرمان کے تحت وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا ہے، اس تبدیلی سے امریکہ کے سعودی عرب کی سیاست میںاثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
ان عہدوں کے علاوہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنی کابینہ میں اور بھی خاصی تبدیلیاں کر دی ہیں۔شہزادہ منصور بن مقرن کو شاہی دیوان کا مشیر مقر کر دیا گیا ہے جن کا عہدہ وزیر کے برابر ہوگا۔ان کے علاوہ وزیر محنت عادل فقیہ کو بر طرف کر کے مفرج الحقبانی کو وزیرِمحنت کا عہد دیدیا گیا ہے۔ فقیہ کو مالیات اور منصوبہ بندی کا قلمدان دیدیا گیا ہے۔اس کے ساتھ سعودی فورسز کو ایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہ دینے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ ایسالگتا ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیزکو سعودی عرب کی پالیسی کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق دکھائی دے رہے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی سیٹ اپ میں اس بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
Saudi Arabia
مگر ہم سمجھتے ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز سعودی عرب کو دنیا کی جدید ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہیں ۔موجودہ حکومت جدت پسندی کی زبردست حامی سمجھی جا رہی ہے۔اسکی غمازی نئے وزیر خارجہ کر رہے ہیں جوجدید تصورات کے حامی ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی سیاست کی اہم تبدیلیاں اس بات کی بھی غماض ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدلعزیر کی حکومت پر یمن کی بغاوت کا دباﺅ دن بدن کمزور پڑ رہا ہے اور انہیں داخلی استحکام پر توجہ دینے کا موقع مل رہا ہے۔سعودی سیاست کی اندرونی تبدیلیاں ۔ان کا اندرونی معا ملہ ہے۔مگرہمارے لئے سعودی عرب کا اندرونی اور بیرونی استحکام نہایت اہمیت کا معاملہ ہے۔کیونکہ یہ اسلامی دنیا کی ایک مثالی ریاست ہے جہاںسے ہماری دینی جذباتیت کی تسکین کے سامان مقدس مقامات حرمین الشریفین کی موجودگی سے فراہم ہوتے ہیں۔جن کی حفاظت کے لئے ہر مسلمان کٹ مرے کو تیا ہے۔