ریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب کی شوری کونسل کی ایک رکن مونا المشیت خود شاہ خالد یونیورسٹی میں گائناکالوجی کی پروفیسر اور کنسلٹینٹ ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ طبی وجوہ کی بنا پر دوسری اقسام کی سرجری کے لیے خاوند کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
انھوں نے یہ باتیں الریاض میں منعقدہ مریضوں کے حقوق سے متعلق پہلی خلیجی کانفرنس میں علاقائی اور عالمی سطح پر خواتین کی صحت کے شعبے میں بااختیاری کے موضوع پر پیپر پیش کرتے ہوئے کہی ہیں۔ مونا المشیت نے کہا کہ خواتین کو تولیدی برسوں کے دوران علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تحریک سے علاج کی بھاری لاگت اور چھاتی کے سرطان جیسی بیماریوں سے اموات میں کمی واقع ہو گی۔
انھوں نے تجویز پیش کی کہ بینائی اور بصارت سے محرومی سمیت خصوصی ضرورت کی حامل خواتین کے لیے خصوصی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی نگہداشت پر سعودی مملکت کے دسویں ترقیاتی منصوبے میں بھی زور دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سنہ 2000 میں وضع کردہ ہزاریے ترقیاتی اہداف کے مطابق خواتین کی صحت سے متعلق پروگراموں کو اختیار کیا جانا ضروری ہے۔
سعودی عرب نے ان ترقیاتی اہداف پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن وہ 2060 کے اختتام تک ان مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے ابھی کام کر رہا ہے۔ سعودی شوریٰ کونسل کی رکن کا کہنا تھا کہ خواتین کی صحت کے شعبے میں بااختیاری گذشتہ چند سال کے دوران مقامی ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر گہری تشویش کا سبب رہی ہے۔ سعودی عرب میں صحت کے نجی اور سرکاری شعبے نے اس کو قبول کیا ہے اور سعودی حکومت اس ہم شعبے میں جاری کوششوں کی معاونت کر رہی ہے۔اس ضمن میں بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان میں سعودی جامعات میں خواتین کی صحت سے متعلق اعلیٰ سطح پر تحقیق کے لیے چئیرز کا قیام بھی شامل ہے۔