اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی بجٹ میں ایک پبلک کمپنی کے غیرمنقسم محفوظ سرمائے پر 10% ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو کہ مضاربہ، شیڈول بینک اور حکومتی ملکیت کی ان کمپنیوں کے علاوہ ہے جن کا ادا شدہ سرمایہ 100% سے زیادہ ہے۔
اس قانون کی شق سے ایک ہی آمدنی پر ٹیکس کا کئی مرتبہ اطلاق ہو گا جبکہ یہ محفوظ سرمایہ اس منافع سے حاصل کیا گیا ہے جس پر کمپنیوں نے پہلے ہی کارپوریٹ ریٹ کے مطابق ٹیکس ادا کر دیا ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی کے بعد حاصل ہونے والے اس منافع پر ایک بار پھر 10% ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
اگر محفوظ زرنقد ادا شدہ سرمائے سے 100% زیادہ ہو تو اس پر ہر سال ٹیکس عائد ہو گا تا آنکہ زر محفوظ ٹیکسوں کی بار بار ادائیگی کے بعد صفر ہو جائے یا کمپنی کے حصہ داروں میں حصہ داری کا خالص فیصد منافع کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔
اگر وزیر خزانہ کا مقصد یہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے کہ کسی بھی کمپنی کے پاس ادا شدہ سرمائے کے 100% سے زیادہ محفوظ سرمایہ نہ ہو تو یہ ایک بہت ’’بہترین‘‘ قانون ہے اور کمپنیاں اثاثوں میں توسیع نہ کر سکیں گی کیونکہ ان کے پاس اتنی آمدنی ہی نہیں ہو گی کہ جس سے وہ مزید منافع کما سکیں یا ٹیکسوں کی ادائیگی کر سکیں اور روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ جس کسی نے بھی وفاقی وزیر صاحب کو یہ مشورہ دیا، غالباً اس کا مقصد ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچے اور کارپوریٹ سیکٹر کی نمو سُست روی کا شکار ہو جائے۔
اگر کسی کمپنی کے پاس اس کی آمدنی میں بچت کا بڑا حصہ نہیں ہو گا تو اس کیلئے بڑے منصوبوں پر رقم لگانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ حیرت ہے کہ وزیر خزانہ نے اس تجویز کو گہری نظر سے کیوں نہیں دیکھا۔
وہ پبلک کمپنیاں جو گزشتہ بیس سے تیس برسوں کے دوران جمع شدہ آمدنی سے مختلف منصوبوں اور مشینری میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں تو وہ اپنے گردشی سرمائے (Working Capital) کیلئے بینکوں سے قرض حاصل کرنے پر مجبور ہوں گی تا کہ اس غیر منصفانہ اور جابرانہ ٹیکس کی ادائیگی کے قابل ہو سکیں۔ کوئی نجی لمیٹڈ کمپنی اپنی صحیح سوچ کے ساتھ عوامی (Public) حیثیت حاصل نہیں کر سکے گی۔ اگر اس کا طویل المدتی ہدف توسیع حاصل کرنے کا ہو کیونکہ ان کمپنیوں کیلئے توسیع حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر ان کے پاس مناسب مقدار میں محفوظ سرمایہ نہیں ہو گا تو کیا یہ ٹیکس ان کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو توسیع حاصل کرنا چاہتی ہیں یا جن کا طویل المدتی ہدف کاروبار بڑھانا ہے۔ یہ ٹیکس صرف پبلک کمپنیوں پر قابل نفاذ ہے جو کہ غیر مساویانہ ہے کیونکہ اس کا ہدف وہ کمپنیاں ہیں جو خالصتاً قانونی دائرہ کار میں آتی ہوں ان پر ٹیکس عائد کرنا ہے۔
بہت سی نجی اور سرکاری ملکیتی کمپنیاں اس ٹیکس کی ذیل میں نہیں آئیں گی۔ اس کے باوجود کہ وہ قابل منافع ہونے کے باعث اس معیار پر پورا اترتی ہیں اور ان کے محفوظ سرمائے قابل ادائیگی زرِنقد کے بعد کافی مقدار میں ہیں اور خواہ یہ کمپنی نجی ہے یا سرکاری اس پر ٹیکس کا نفاذ نہیں ہو سکے گا۔ دنیا بھر کی کمپنیاں اپنے منافع کی دوبارہ سرمایہ کاری کر کے ترقی کرتی ہیں۔ دنیا کی بڑی کمپنیوں کے، جن میں ایپل، مائیکروسافٹ، جنرل الیکٹرک چند ایک ہیں، ان کے محفوظ سرمائے کی مقدار ان کے ادا شدہ زرِِنقد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ان کا نقد میزان پورے پاکستان کے محفوظ سرمائے سے بھی زیادہ ہے اور یہ محفوظ سرمایہ کسی بھی اچھے مواقع پر سرمایہ کاری کیلئے دستیاب رہتا ہے۔ اس قسم کے ٹیکس جب ماضی میں متعارف کرائے گئے تو کاروباری برادری نے ان کی مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو کبھی نافذ نہ کیا جا سکا۔ ماضی میں 1979ء کے کالعدم آرڈیننس کے تحت اسی نوعیت کا محصولاتی نظام متعارف کرایا گیا۔
اس پر بھی وہی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جس پر یہ ٹیکس مؤثر طور پر اس سال کی آمدنی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور وہاں پر یہ نافذ العمل نہ تھا جہاں سال بھر کی تقسیم (Distibution) سالانہ منافع کے 40 فیصد سے کم تھی یا زر تقسیم کے 50 فیصد تک تھی۔ 1999ء کے کالعدم شدہ فنانس ایکٹ کے سیکشن 12 کے ذیلی سیکشن (9A) کے تحت اسی طرح کا ایک اور ٹیکس متعارف کرایا گیا۔
تاہم یہ صرف 30 جون 2002ء تک قابل تنفید رہا البتہ اس کو یکم جولائی 2002ء کے آرڈیننس کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ امید ہے کہ حکومت مجوزہ سیکشن کی معروضی مادی خامیوں(material dafects) کا جائزہ لے گی اور اس کو واپس لے لے گی اور کارپوریٹ سیکٹر کی نمو کے ساتھ اس کی اقتصادی ترقی کو جاری رکھے گی جوکہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔