ہر پل بچھڑتے رہنے کا یہ ڈر اتار دے سانسوں میں وہ خمار کا منظر اتار دے جو مجھ کو تیری روح کے اندر اتار دے گر ہوسکے تو دل کے اس اجڑے دیار میں اپنے خیال و خواب کا پیکر اتار دے راہِ وفا میں چھوڑدے ہم کو تو آج ہی ہرپل بچھڑتے رہنے کا یہ ڈر اتار دے جس پر مجھے یقین تھا اپنے وجود کا مجھ کو اسی مقام پہ لاکر اتار دے تجھ کو عزیز تر ہیں نئے ماہ و سال اب دیوار سے پرانا کیلنڈر اتار دے