صرف ہمارے وزیرِ اعظم اور محترم عمران خاں ہی ”مبتلائے عشقِ طالبان ”نہیں بلکہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے طالبان بھی اپنی محبوبانہ ضد اور ناز و انداز میں کسی سے کم نہیں گویا ” دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی” شنید ہے کہ طالبان نے اپنے عاشقان کے عشق کی صداقتوں کو پرکھنے کے لیے 35 شرائط رکھی ہیں حالانکہ کوئی شرط ہوتی نہیں پیار میں مگر پیار شرطوں سے تم نے کیا عشق کے اِس امتحان میں عمران خاں تو پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نہیں کیونکہ سانحہ پشاور چرچ کے باوجود خاں صاحب اپنے ”محبوبان” کو دفتر کھول کر دینے کے لیے بے قرار ہیں اوراگر خاں صاحب سے طالبان کے معاندانہ رویے کا ذکر کیا جائے تو وہ لال پیلے ہو کر کہتے ہیں۔
نظر لگے نہ کہیں اُن کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
اب پشاور میں سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کی بس پر طالبان کے حملے میں بیس ملازمین کی شہادت پر خاں صاحب کو چاہیے کہ خیبر پختونخواہ کا وزیرِ اعلیٰ ہاؤس طالبان کے حوالے کر دیں تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔ دوسری طرف میاں صاحب کا رویہ بزبانِ غالب کچھ یوں ہے کہ عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے
اب اُنہوں نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ طالبان پہلے ہتھیار پھینک کر آئینِ پاکستان کو تسلیم کریں، تبھی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ البتہ طالبان کو میاں صاحب سے وقتی جدائی بھی گوارا نہیں۔ میاں صاحب نے ”عزمِ چین” کیاتو طالبان کو یہ جُدائی ایک آنکھ نہ بھائی اور اُنہوں نے چینی سیاحوں کو قتل کر کے اپنے دُکھ کا اظہار کر دیا۔ پھر میاں صاحب نیویارک کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو لگ بھگ ایک سو مسیحی بھائی اِس عشق کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میاں صاحب کے خطاب سے چند گھنٹے قبل طالبان نے پشاور سول سیکرٹریٹ کے 20 ملازمین کو اِس عشق کی بھینٹ چڑھا دیا۔
میاں صاحب اب غالباََ 30 ستمبر کو واپس آ رہے ہیں اِس لیے میری تجویز ہے کہ پورا ملک ایئر پورٹ پہنچ کر خدمتِ عالیہ میں دست بستہ یہ استدعا کرے کہ اب اگلے پانچ سال تک وہ کسی بیرونی دورے پر نہ جائیں تاکہ طالبان کے اِس انوکھے اظہارِ عشق سے محفوظ رہا جا سکے لیکن شنید ہے کہ ”ضدّی”میاں صاحب اکتوبر کے آخری ہفتے میں پھر تھائی لینڈ کے دورے پر جا رہے ہیں اِس لیے ابھی وقت ہے کہ قوم حفاظتِ خوداختیاری کا معقول بندوبست کر لے۔ رہبرانِ قوم کی حفاظت کے لیے کی جانے والی پولیس کی انتہائی مصروفیات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے قوم ٹوٹا پھوٹا بندوبست تو پہلے بھی کر ہی رہی ہے لیکن اب معقول بندوبست کرنا ہو گا کیونکہ طالبان کو بہت سے ”بَلی کے بکروں” کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ ہم نے جو کہنا تھا، کہہ دیا ”پھر نہ کہنا، ہمیں خبر نہ ہوئی۔
لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میاں برادران اور کپتان صاحب کے مابین سیاسی رقابت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ عاشقانہ رقابت ہے۔ اسی لیے خاں صاحب اپنے رقیبانِ روسیاہ پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور اسی رقابت میں بیچارے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو بھی رگڑا دیتے رہتے ہیں۔ویسے تو خیر مولانا صاحب اتنے بیچارے بھی نہیں۔ وہ بھی جب دل کی بھڑاس نکالنے پہ آتے ہیں تو ”لمبی لمبی چھوڑتے” ہیں لیکن خاں صاحب کا مقابلہ پھر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ خاں صاحب بلا امتیاز گرجتے اور بِلا خوف برستے ہیں جبکہ مولانا صاحب اپنا مستقبل محفوظ کرنے کی خاطر کبھی کبھی طرح بھی دے جاتے ہیںاور میاں نواز شریف تو جواب ہی نہیں دیتے۔
Supreme Court
جب سے سپریم کورٹ نے کپتان صاحب کو توہینِ عدالت کیس سے بری کیا ہے تب سے قوم کو یہ پتہ چل گیا کہ آئین اور قانون کی رو سے لفظ ”شرمناک” گالی نہیں ہے اِس لیے اب خاں صاحب سینہ تان کے اِس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ چرچ پر حملے کے چھ، سات گھنٹے بعد غصّے سے ”لال بھبھوکا” عمران خاںنے فرمایا ”اُن لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو اِس حملے پر سیاست کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے یہ کہہ کر مخالفین کے مُنہ بند کر دیئے کہ اِس سے پہلے بھی پشاور میں 210 حملے ہو چکے ہیں۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر 210 حملوں کے باوجود بھی پشاور قائم و دائم ہے تو اِس حملے پر کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ یہاں کپتان صاحب کے مخاطب اے این پی کے میاں افتخار تھے جو خود کُش حملے کے بعد جائے وقوعہ پرسب سے پہلے پہنچے۔ یہ وہی ہیں میاں افتخار ہیں، جن کا اکلوتا جوان بیٹا طالبان کی بھینٹ چڑھا۔ اُنہوں نے مسیحی برادری سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے چند جملے کہے جن پر عمران خاںبھڑک اُٹھے۔ دراصل خیبر پختونخواہ کے بے تاج بادشاہ، عمران خاں یہ اپنا آئینی اور قانونی حق سمجھتے ہیں کہ اُن کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے اسی لیے اُنہیں یہ مداخلتِ بے جا پسند نہیں آئی۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ خاں صاحب آجکل کچھ بوکھلائے بوکھلائے سے ہیں۔ وہ الیکشن سے پہلے 90 بلکہ 9 دنوں میں ملک سنوارنے کا دعویٰ تو کر بیٹھے لیکن 100 دنوں میں ایک چھوٹے صوبے کی افرا تفری پربھی قابو نہ پا سکے۔ اُدھر نیٹو کنٹینر بھی اُن کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے دھڑا دھڑ گزر رہے ہیں اور ڈرون لہراتے، بَل کھاتے اُنہیں ”شرم” دلارہے ہیں اِسی لیے وہ بات، بے بات بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اب اُنہوں نے فرمایا ہے کہ 180 دنوں میںقوم کو خیبر پختونخواہ میں واضح تبدیلی نظر آنے لگے گی۔ اب پتہ نہیں اِن 180 دنوں میں گزرے 100 دن بھی شامل ہیںیا پھر ”مُڈوں سُڈوں پَیل” یعنی نئے سرے سے گنتی ہو گی۔ بہرحال واضح تبدیلی کا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ وہ پٹواریوں کو سیدھا اور تھانیداروں کو مسلمان کر دیں گے جس طرح خادمِ اعلیٰ بیوروکریٹس کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے ہیں اسی طرح کپتان صاحب کا ٹارگٹ پٹواری اور تھانیدار ہیں۔ جَل بھُن کے کباب ہوا ایک پٹواری کہہ رہا تھا کہ ہم ٹارگٹ ہیں اور ”ٹارگٹ کلر ” عمران خاں کپتان صاحب نے پٹواریوں کو سیدھا کرنے کی بات تو خوب کہی لیکن یہ ہمارے علم میں بھی نہیں تھا کہ ہمارے ”تھانیدار” مسلمان نہیں۔ اب اگر اُنہوں نے تھانیداروں کو مسلمان کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو پھر اتنا بھی بتلا دیں کہ تھانیداروں کو کون سے مسلمان بنانے کا ارادہ ہے، شیعہ، سُنّی، اہلِ حدیث یا طالبان؟ میرے خیال میں تو تھانیداروں کے لیے ”طالبانہ اسلام” بہتر ہو گا۔پھر بھی خاں صاحب اپنی اتحادی جماعتِ اسلامی سے مشاورت کر لیں۔ مجھے یقین ہے کہ جماعت اسلامی بھی طالبان کے حق میں ہی ووٹ دے گی۔
ایسی صورت میں ہمارے بیچارے تھانیدار خود کُش بمباروں سے محفوظ بھی ہو جائیں گے اور خاں صاحب کے محبوب بھی ٹھہریں گے لیکن ایک خطرہ بہرحال رہے گا کہ کہیں تھانیدار بھی خود کُش جیکٹیں نہ پہن لیں۔ ایسی صورت میں طالبان کے ساتھ ساتھ تھانیداروں کو بھی الگ سے دفتر کھول کر دینا پڑے گا تاکہ مذاکرات میں آسانی رہے۔ کپتان صاحب نے اپنے محبوب طالبان کو مذاکرات کے لیے دفتر کھول کر دینے کی تجویز کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ حکومت طالبان کے خلاف ”سیزفائر” کا اعلان کرے۔ باوجود یکہ کچھ بَد باطن اِس تجویز کو انتہائی ”شرمناک” اور احمقانہ قرار دیتے ہیں لیکن ہم کپتان صاحب کی اِس مدبرانہ اور ارسطوانہ تجویز کی بھرپور حمایت کرتے ہیں البتہ ہمیں خوف ہے کہ اگر یہ تجویز فوج کے گوش گزار کی گئی تو کہیں جمہوریت سے والہانہ محبت کرنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طبع نازک پر یہ تجویز گراں نہ گزرے اور وہ مارشل لاء لگا کر یہ نہ کہہ دیں کہ ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔