مثلا یہ کہا جا رہا ہے کہ سٹیٹ بینک کے قانون کے پاس ہونے سے سٹیٹ بینک IMF کا غلام بن جائے گا یا پھر سٹیٹ بینک کو گورنر ،وزیر اعظم ،صدر سے بھی زیادہ اختیارات مل جائیں گے کوئی بھی قانون ،نیب ،ایف آئی اے یا پھر اینٹی کرپشن یونٹ اس کے خلاف کاروائی نہیں کر سکے گا تو ان سب کو یہاں تفصیل سے ڈسکس کرتے ہیں میں تو کوئی ماہر معیشت نہیں ہوں لیکن دوستوں کا فالورز کا دبائو ہوتا ہے کہ اس پر لکھا جائے ویسے بھی ہر دوسرے دن ایک نیا ٹاپک تیار ہوتا ہے پیٹنے کے لیے میڈیا کو ملندریاں ڈالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو چاہیے ظاہر ہے انہوں نے تو موجودہ حکومت کے ہر اقدام پر تنقید ہی کرنی ہے لیکن کچھ سوال بہت واضح ہیں میں نے بہت سی تحریریں پڑھیں موقف جانے پرگرام دیکھے لیکن محترم عاصم چودھری کا موقف حقیقت سے بہت قریب لگا سو میں نے انہیں فالو کیا ۔ وہ لکھتے ہیں سٹیٹ بینک کو 1956کے ایکٹ کے تحت چلایا جا رہا ہے اس ایکٹ میں بہت سی چیزیں واضح نہیں ہیں جن پر ایڈریس کرنے کی ہمیشہ سے بہت ضرورت ہے اور دوسری بات سٹیٹ بینک ہمیشہ سے حکومتی کنٹرول میں رہا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے ایک سنگل بندے کے کنٹرول میں رہا ہے۔
اور وہ ہے وزیر خزانہ، یعنی پورے ملک کا مالک و مختار ہوتا ہے وزیر خزانہ جو جب چاہے کسی کا بھی ناطقہ بند کر سکتا ہے ،چونکہ وزیر خزانہ ایک سیاسی عہدہ ہوتا ہے لہذا اس کی پالیسیوں میں اس کی پارٹی کا مفاد واضح جھلکتا ہے اس کی ایک مثال ” تین ارب لودھراں والو تم پر قربان ” جو مفاد ختم ہونے پر کبھی نہ ملے ۔۔کیونکہ ہو سکتا ہے تین ارب سٹیٹ بینک کے پاس ہوں ہی ناں سیاستادان میلہ لوٹنے کے لیے ایسے نعرے لگا دیتے ہیں یہی وجہ تھی فسکل ڈیفی سٹ قرضوں اور منصوبوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کو فیصلہ سازی کا اختیار دینا بہت ضروری تھا۔
یہ نہیں کہ آپنے کہا مجھے سو ارب چاہیںتو سٹیٹ بینک آپ کو سو ارب فورا دے دے لہذا سٹیٹ بینک کو حکومتی تسلط سے آزاد کر کے اس کو پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ طور پر دے دیا گیا تاکہ پاور کا اختیار ایک بندے کی بجائے پوری پارلیمنٹ کے پاس ہو اور پھر میٹرو ٹرین جیسے منصوبے ایک شخص کے دماغی خلل کے باعث دوبارہ نہ بنیں ،گورنر کو پہلے وزارت خزانہ کی ایک کمیٹی اپوائنٹ کرتی ہے لیکن اس قانون میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ گورنر کا فیصلہ کابینہ کرے گی جو کہ صدر پاکستان کو اپروول کے لیے بھجوائے گی اس قوم کو استعمار یقوتوں اور مذہب کے نام پر چونا لگانا کتنا آسان ہے کہ بڑے بڑے دانشور دلیل سے بات کرنے کی بجائے یہی دو باتیں ہی کرتے نظر آ رہے ہیں اندازہ کریں ،کیا صدر پاکستان آئی ایم ایف لگاتی ہے یا ورلڈ بینک ؟کیسے سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے تسلط میں چلا گیا ؟اگلی چیز جو اس قانون میں لکھی ہوئی وہ یہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کے خلاف ،نیب ،ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن یونٹ کوئی کاروائی نہیں کر سکے گا ،تو کیا گورنر سٹیٹ جو مرضی کرپشن کرتا رہے اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا ؟؟؟
اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سن لیں کہ گورنر کو ہٹایا کیسے جا سکے گا ؟اگر گورنر کوئی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے تو پارلیمانی کمیٹی اس کی تحقیقات کر کے اس کیس کو کورٹ آف لاء میں پیش کرے گی کورٹ آف لا اس کمپنی کی تحقیقات کی روشنی میں خود انویسٹی گیشن کروائے یا اس کمپنی کی رپورٹ پر فیصلہ دے وہ اس کی مرضی یوں اس کے بعد گورنر کو صدر پاکستان ہٹا سکیں گے ،اگر گورنر کو صدر ،وزیر اعظم کابینہ کی ریکمینڈیشن پر اپوائنٹ کرتا ہے اور ہٹا بھی سکتا ہے تو گورنر صدر اور وزیراعظم سے طاقتور کیسے ہو گیا ؟اور کورٹ آف لاء اس کے خلاف انویسٹی گیشن کر سکتی ہے تو وہ احتساب سے بالا تر کیسے ہو گیا ؟؟؟
تیسرا سوال ،اس قانون میں یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ اگر گورنر سٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی ،شرح سود یا کسی بھی قسم کے فیصلے سے کوئی نقصان ہوتا ہے تو اس کا زمہ دار گورنر نہیں ہوگا بلکہ گورنر کو اسی طرح امیونٹی حاصل ہو گی جیسے کسی ممبر آف پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ میں ہر طرح کی بکواس کرنے کی آزادی حاصل ہے جس طرح ایاز صادق کھلا پھر رہا ہے لیکن اس کی بھی شرط ہے کہ اگر اس فیصلے میں گورنر سٹیٹ بینک کے فیصلے میں کسی قسم کی میلا فاینڈ انٹیشنثابت ہوئی تو گورنر کو یہ امیونٹی ختم ہو جائے گی اور اس کا فیصلہ کورٹ آف لاء کرے گا اگر میلا فاینڈ انٹیشن ثابت ہوئی تو اس پر قانون کے مطابق کیس چلے گا۔
میں یہ سب تفصیل اس لیے لکھ رہی ہوں کہ ہمارے ہاں بات بات پر افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے ظاہر ہے عوام ان باریکیوں میں نہیں جاتے اور افواہ ساز مرضی کے طومار باندھتے ہیں اگلی افواہ جو پھیلائی جا رہی ہے کہ سٹیٹ بینک گورنر کسی کو جواب دہ نہیں ہوگا ،پوچھنا یہ ہے کیا پچھلے قانون میں گورنر سٹیٹ بینک جواب دہ تھا ؟پچھلے قانون میں صرف یہ درج تھا کہ سٹیٹ بینک سالانہ پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائے گا اب اس رپورٹ میں کیا جمع کروائے گا کیا نہیں یہ مینشن نہیں ہے جب کہ نئے قانون میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک ان پرسن پارلیمنٹ میں پیش ہو کر سالانہ پارلیمنٹ کو بریفنگ دے گا جس میں مانیٹری پالیسی ،اکانومی ،فنانشل سسٹم ،بینکنگ سیکٹر اور مختلف اکانومک فیکٹرز کی وضاحت کرے گا۔
اور پارلیمنٹ سال میں جب چاہے گورنر سمیت سٹیٹ بینک کے کسی ممبر کو پارلیمنٹ میں طلب کر سکتی ہے اور سٹیٹ بینک یہ رپورٹ سال میں کم از کم دو بار پبلش کرنے کا زمہ دار ہو گا تاکہ ساری عوام کوپتہ چلے کہ ملک میں معیشت ،مانیٹری پالیسی ،اور فنانشل سسٹم کس طرف جا رہا ہے اس پراپیگنڈے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں کوئی مداری جیبیں چھنکاتا یہ اعلان نہیں کر سکے گا جیبیں بھر کرلایا ہوں قربان قربان۔
اور یہی وہ تکلیف ہے جس پر اپوزیشن چیخیں مار رہی ہے اور اپنے اپنے رینٹڈ ماہر معیشت دان مارکیٹ میں چھوڑ دیے ہیں کہ جائو عوام کو گمراہ کرو اور ان میں سب سے بڑا مداری چچا قیصر بنگالی بابا ہے جس نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ سٹیٹ بینک ملازمین کی تنخواہیں دینا بند کر دے گا اس طرح کے سطحی لیول کے لوگوں کو پتہ نہیں ماہر معیشت کون بناتا ہے قانون یہ نہیں پاس ہوا کہ سٹیٹ بینک جب چاہے تنخواہیں بند کر دے گا نہ ہی اس کا کوئی ذکر ہے اس لیے عوام ان جھوٹے پروپیگنڈوں سے اپنا وقت خراب نہ کریں کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو مسٹر عاصم چودھری سے رابطہ کر سکتے ہیں !