پلڑا کسی کا بھی بھاری ہو علاج لازم ہے

Imran, Shahbaz and Nawaz Sharif

Imran, Shahbaz and Nawaz Sharif

تحریر : عماد ظفر
بالآخر اقتدار کے ایوانوں میں جاری سرد جنگ کی بازگشت اب باہر بھی سنائی دینے لگی.انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ جس کو کہ بعد میں وزیراعظم ہاوس کی جانب سے مسترد کر دیا گیا اس رپورٹ کا یوں اخبار میں شائع ہونا ویسے ہی نہیں تھا بلکہ یہ سویلین حکومت کی جانب سے اپنے اوپر ایسٹیبلیشمنٹ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کی ایک کوشش تھی. باخبر ذرائع جانتے ہیں کہ ایسی خبریں کیوں جان بوجھ کر نکالی جاتی ہیں اور پھر بعد میں ان کی تردید کر دی جاتی ہے. خیر یہ سول ملٹری تناو اب دو شریفوں میں سے کس کی رخصت پر ختم ہوتا ہے اور شریف چاہے کوئ بھی رخصت ہو وہ کتنی شرائط منوا کر رخصت ہوتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے. سیاسی منظرنامے کے سبھی فریق جانتے ہیں کہ نواز شریف کو صرف فوجی ایسیسٹیبلیشمنٹ کے زریعے ہی زیر کیا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان تیس اکتوبر کو فائنل راؤنڈ کھیلنے کیلئے بیتاب ہیں۔

دوسری جانب آصف زرداری دسمبر میں وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ انکی واپسی راحیل شریف کو ایکسٹینشن نہ دئے جانے سے مشروط ہے. ادھر ہندوستان نے اڑی حملے کے بعد سرجیکل سٹرائیک کا جو شوشہ چھوڑا اس نے بھی پاکستانی ملٹری ایسٹیبلیشمنٹ کو بیک فٹ پر دھکیل دیا.سرجیکل سٹرائیک ہوئ یا نہیں اس بحث سے قطع نظر ہندوستان کے اس سرجیکل سٹرائیک کے دعوے پر کسی بھی عالمی ملک نے پاکستان کے حق میں آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی کشمیر کے مسئلے پر بھارت کو عالمی برادری سے کسی خاص ردعمل کا سامنا کرنا پڑا. غالبا ہماری ملٹری ایسڑیبلیشمنٹ یہ توقع نہیں کر رہی تھی کہ نواز شریف پر تمام تر سیاسی دباؤ ڈالنے کے باوجود ان کو نہ صرف آل پارٹیز کانفرنس میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ مسعود اظہر حافظ سعید حقانی نیٹ ورک دوارے بھی سخت الفاظ سننا پڑیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرتی نظر آئ اور دفاعی ایسٹلیشمنٹ کے معزز جنریلوں نے پارلیمانی کمیٹیوں کو پرزینڑیشن نہ دینا ہی مناسب سمجھا. دوسری جانب ڈان اخبار اور ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر غداری اور ملک دشمنی کی منظم مہم کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ اندازہ لگانا ہر چند بھی مشکل نہیں کہ اس کمپین کو کس نے شروع کروایا. مولانا مسعود اظہر سے لیکر حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے مختلف گروہ اب پاکستان کیلئے ایسی لائیبیلیٹی بن چکے ہیں جو نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی خدمات کو ضرب پہنچا رہے ہیں بلکہ کشمیر کے مسئلے پر بھی ان کی وجہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں اچھا رسپانس نہیں ملنے پاتا. ان شدت پسندوں اور جہادیوں کو پالنے کا اختیار ہمیشہ سے ملکی سلامتی کی پالیسیاں بنانے والوں کے ہاتھوں میں رہا ہے .کوئ بھی سویلین حکومت نہ تو ان شدت پسندوں کو پالنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے اور نہ ختم کرنے کے۔ یہی وجہ ہے کہ سویلین حکومتوں کو بیرونی ممالک میں ان شدت پسندوں کی وجہ سے سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر سفارتی ناکامی کا سارا ملبہ سویلین حکومتوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

Taliban

Taliban

حالانکہ گڈ اور بیڈ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی پالیسی بنانے میں ان کا کوئ کردار نہیں ہوتا. نواز شریف نے غالبا راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو اچھا موقع گردانتے ہوئے پھر سے سویلین کنٹرول کا پلڑا بھاری کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ ان شدت پسندوں کو پال کر سویلین حکومتوں سے بہتر یاـمثبت نتائج کی توقع نہ کی جائے. بہت سے ناقدین کے خیال میں نواز شریف کو ان حالات میں اس طرح کا رسک نہیں لینا چائیے تھا اور معاملات کو جوں کا توں چلتے دینا چائیے تھا.لیکن شاید کئی تجزیہ کار یہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلے 18 برس میں اس ملک میں صرف تین چیف آف آرمی سٹاف آئے ہیں اور ان میں سے راحیل شریف وہ پہلے آرمی چیف ہوں گے جو بنا کسی ایکسٹینشن کے مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوں جائیں گے. یعنی اگر راحیل شریف اپنی مقررہ مدت پر ریٹائیرڈ ہوتے ہیں تو یہ بھی پچھلے اٹھارہ برسوں میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد واقع ہو گا۔

اس بات میں کوئ دو رائے بھی نہیں کہ راحیل شریف مقبولیت کے لحاظ سے پچھلے آرمی سربراہان سے کہیں زیادہ آگے ہیں. دوسری جانب اسلام آباد پر عمران خان کا دھاوا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں شرہفوں کے مابین یا تو نئے آرمی چیف کی تقرری کو لے کر کچھ اختلافات ہیں یا پھر ایکسٹینشن کو لے کر. یا پھر کچھ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ایک شریف سے زیادہ خوش نہیں دکھائ دیتا. ڈی جی ایس آئ کو تبدیل کیئے جانے کی خبریں بھی گردش میں ہیں اور فوج میں چیف آف آرمی سٹاف کے بعد دوسرا اہم ترین عہدہ ڈی جی آئی ایس آئی کا ہوتا ہے. یعنی نواز شریف بھی بھرپور موڈ میں ہیں کہ دھرنے کو بنیاد بنا کر کوئ بھی کاکڑ فارمولا بنا کر انہیں آؤٹ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو. اب شریفوں کی لڑائ میں کوئ بھی شریف جیتے یا ہارے لیکن “بدمعاش” کو نہ تو اس میں کوئ حصہ ملے گا اور نہ ہی کوئ فائدہ۔

دوسری جانب اب وقت آ گیا پے کہ سویلین اور دفاعی ایسڑیبلیشمنٹ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے ہی پیدا کئے ہوئے اور پالے ہوئے سانپوں کو اب ختم کرے تا کہ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کاشوں کو اقوام عاکم سنجیدگی سے لیں بلکہ کشمیر کے موقف پر بھی ہمیں اخلاقی و سفارتی فتح حاصل ہو. طاقت کا پلڑا سول حکومت کے حق میں جھکے یا دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے حق میں دونوں ہی صورتوں میں ان شدت پسندی اور دہشت گردی کے منبع افراد اور جماعتوں کا خاتمہ ضرور ہو جانا چاہیئے۔

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر