تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم لم یزل کی بے پناہ حمد و ثنا اور محمد مصطفی کریم ۖ کی ذات بالا صفات پر کروڑ ہا بار درودوں کے نذرانے کہ جن کی رحمت نے مجھے میرے عیبوں سمیت زمانہ کی نظروں میں معتبر رکھا ۔مجھے میرے حلقہ ء یاراں سے لہجہ کی تلخی اور حال کی خوشیوں پر لکھنے کے بجائے ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں پر ہی کڑھنے کا مثبت پہلو کو چھوڑ کر منفی پہلو اٹھانے کا اور حاکم وقت پر تعریفی جملے لکھنے کے بجائے ہمہ وقت اپوزیشن کا کردار ادا نہ کرنے کا مشورہ ملتا ہے۔
بلکہ ایک دوست نے تو اتنا تک کہہ دیا کہ تم چھوڑو ان حکومتوں کے قضیئے اور قدرت کی رنگینیوں پر حسین وادیوں پر حسن پر لکھو بلکہ اس نے تو مجھے ردیف قافیہ بھی عنائت کیا کہ
بہاروں پہ لکھو ،،،نظاروں پہ لکھو قدرت کے انمول شاہکاروں پہ لکھو حسین وادیوں کا پتہ دو ہمیں فخر سے سر بلند کوہساروں پہ لکھو
افسوس کہ کشمیر کو وادی سمجھا نہ کوہساروں کی زمین اور اس جنت نظیر خطہء ارضی پہ ہونے والے مظالم شائد اسے نظر نہیں آتے یا پھر وہ پاکستان کے حکمرانوں کی طرح دانستہ طور پہ اس پہلو کو نظر انداز کرکے اپنے ساتھ دھوکہ کر رہا ہے۔
آج سوشل میڈیا دور ہے اور اگر کسی وزیر مشیر کی کرپشن کی کوئی تصویر اپ لوڈ ہوجائے تو اس وزیر یا حکومتی پارٹی کی طرف سے بہت جلد تردید آجاتی ہے کہ مذکورہ تصویر کسی سازسی گروہ نے بنائی ہے موصوف کا اس تصویر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر اسی میڈیا پر نہتے کشمیریوں عورتوں بچوں پر ہونے والے ظلم کی جو تصاویر آتی ہیں ان کے متعلق حکومت کیا حکم دیتی ہے۔
وطن عزیز کو آزاد ہوئے ستر سال ہوگئے مگر قوم کو آزاد ہونے میں کتنا وقت لگے گا اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں کیونکہ اس طرف ہمیں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہماری ہر حکومت نے اپنے ایک ایم این اے کو راضی کرنے کے لیے اسے کشمیر کی وزارت دی ہوتی ہے جسے وزارت امور کشمیر کہتے ہیں اس وزارت کو بھی دوسری وزارتوں کی طرح بجٹ سے اربوں روپے کے فنڈز گاڑیاں نوکر چاکر اور دیگر لگژری سہولیات ملتی ہیں مگر پاکستان کی وجود میں آنے والی اسمبلیاں گنتی کرلیں وزراء کی ایک فوج آئی جنہوں نے کشمیر کے نام پر اربوں روپے کے فنڈز لیے اور امور کشمیر پر کیا کام ہوا؟ پانچ فروری کی یوم یک جہتی کشمیر کی چھٹی پر ایک تقریر شہر میں چار بینرز پر جذباتی نعرے اور ایک سال کے لیے چھٹی بس کاش ہمارے حکمرانوں کے جسم میں بھی وہ دل ہو جو عوام کا دکھ درد محسوس کر سکے۔
Kashmir
کشمیر جنت نظیر کی بے گناہ عوام بھی ہماری طرح ہمارے حکمرانوں کی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھے انہوں نے کونسا انتخاب میں حصہ لیا ہے ہماری تو غلطی ہے کہ ہم نے ہر بار بند آنکھوں سے صرف اپ ہی کا انتخاب کیا آپ زرداری کے روپ میں آئے تب بھی میاں کے روپ میں آ ئے تب بھی بھٹو کے روپ میں آئے تو بھی اور ضیاء کے مارشل لاء میں بھی مگر کشمیری عوام کو انکے جائز حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا پہاڑوں کے دامن میں واقع حسین وادیاں جنہیں کشمیری اپنی حیات میں حاصل کرنے کی کوشش میں قبرستانوں میں تبدیل کرتے گئے اور آزادی کے لیے جان دینے والوں کو دہشت گرد گردانا جانے لگا مگر تمہیں اس بات کا بھی احساس نہ ہوا اور تمہاری وزارت امور کشمیر نے عالمی سطح پر کہیں بھی یہ قرار داد پیش نہ کی کہ کشمیری جوان دہشت گرد نہیں جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم بس ایک ہی آوازسنتے چلے آرہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
اب ہماری نسل نو کو یہ بھی علم نہیں کہ وہ قراردادیں کس نے پیش کیں کس نے منظوری دی اور عمل درآمد کس نے کروانا ہے عالمی چیمپیئن امریکہ نے جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردارکہتا ہے جہاں کتے کو اپنے ساتھ بستر پر سلانے اور بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں بھیجنے کے انسانی حقوق پرورش پاتے ہیں چرندوں پرندوں کے شکار کو ظلم اور بد تہذیبی کا نام دینے والے نام نہاد انسانوں کا بادشاہ کیا حل کروائے گا مسئلہ کشمیر ۔ خاندان منگولی اور ہلاکو خان کے مظالم اور امریکی مظالم میں بس وردی کا فرق ہے وہ سروں کے مینار بناتے تھے اور امریکہ اپنے اوپر انسانی حقوق کے علمبردار کا لیبل لگا کر ہر اس جگہ وہی تاریخ دہرا رہا ہے جہاں جہاں مسلم آباد ہیں۔
Kashmir Issue
حیرانگی اس بات کی ہے کہ ہمارے حکمران انہیں قرار دادوں کو لیے اس پہلوان پہ اعتماد کیے ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ جنرل اسمبلی میں پہلے اپنا وہ وقار بحال کروا لو جو اللہ نے ایک مسلمان کو عطا کیا ہوا ہے وہاں اگر تم نے غلام بن کر ہی بیٹھنا ہے تو کیا قرارداد اور کیا مسئلہ کم از کم اپنی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے کہ کشمیر کہاں ہے اور بھارت اس پہ کیوں قابض ہے۔
کشمیری عوام کیا چاہتی ہے اور تم کیا چاہتے ہو ایسے پروگرامز منعقد کیے جائیں جس سے ہماری نسل کو آگاہی ملے مگر یہ میٹنگز بڑے شہر کے فائیوسٹار ہوٹلوں میں نہیں دیہات کے کھلے میدانوں میں ہوں پر تم کیا کرو گے ایسے پروگرام جس حکمران کو اپنی کرسی بچانے کے لیے دھرتی ماں کو گالیاں دینے والے لیڈروں کو ساتھ لے کر چلنے کی مجبوری ہو ملک کو تسلیم ہی نہ کرنے والے گروہ کو بھی اسی مجبوری کے تحت ساتھ ملا رکھا ہو کبھی مجرا پارٹی کے دھرنوں کا ڈر ہو تو کبھی قادری کے استغاثے کا ڈر تو وہ حاکم اپنے ملک کے اندرونی مسائل پہ کب توجہ دیگا ہرگز نہیں اسے فرصت ہی نہیں کشمیر تو بعد میں آتا ہے ایسے حالات میں جب ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہو ہر جگہ لوٹ مار کا بازار گرم ہو کبھی سانحہ کوئٹہ ہو رہا ہو تو کبھی سکولوں پر حملہ کسی پارک میں تفریح کے لیے آنیوالے دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہوں تو کون لکھے حسن کے قصیدے والسلام